رپورٹنگ کے لیے 17 اگست کی صبح جڑانوالہ پہنچے تو شہر کے داخلی راستوں پر خاردار تاروں اور پولیس نے ہمارا استقبال کیا۔ تھوڑا آگے گئے تو رینجرز گشت کر رہی تھی اور کسی کو بھی عیسیٰ نگری جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بطور صحافی اپنا تعارف کروا کر عیسیٰ نگری کی گلیوں میں پہنچا تو ہر جگہ تباہی کے مناظر تھے۔
عیسیٰ نگری کی تمام گلیوں میں ایک پرسرار سناٹا تھا، کچھ وقت گزارنے کے بعد اِکا دُکا لوگ نظر آئے۔ ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو گھبرائے ہوئے کہنے لگے کہ اُنہیں کچھ معلوم نہیں۔
اتنے میں ایک خاتون نظر آئیں ان سے بدھ کے واقعات سے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ 16 اگست کی صبح لوگ سو رہے تھے کہ اچانک گلی میں شور اُٹھا کہ گھروں کو خالی کر دو، ایک شخص نے قرآن کی توہین کی ہے۔
خاتون کے مطابق اتنی ہی دیر میں مساجد سے اعلانات شروع ہو گئے اور مشتعل افراد نعرے لگاتے ہوئے عیسیٰ نگری کی گلیوں میں دندنانے لگے جن میں سے اکثر نئے چہرے تھے۔
خاتون کے مطابق اگر ایک شخص نے کوئی گناہ کیا بھی تھا تو اُسے گرفتار کیا جاتا اور اُسے اُس کے کیے کی سزا دی جاتی لیکن ایک شخص کی سزا پورے علاقے کو دے دی گئی۔
خاتون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بلوائیوں کا غصہ دیکھ کر اُنہوں نے اپنی جان بچانے کی غرض سے فوری طور پر اپنے گھر کے باہر اللہ لکھ دیا۔ مظاہرین کی ہاتھ جوڑ کر منتیں کیں کہ اُن کی ماں ضعیف ہیں وہ اِنہیں کہیں اُٹھا کر نہیں جا سکتی جس پر بھی اُن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔
اُن کے بقول مشتعل ہجوم نے گھر کو آگ لگا دی۔ آگ اِس قدر شدید تھی کہ اُس نے پر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ بمشکل اپنی جان بچا پائیں۔
متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ اب اُن کے علاقے میں بجلی ہے نہ پانی۔ رات کہیں سے کھانا آیا تو کھا لیا۔ اَب آگے کیا ہو گا کچھ معلوم نہیں۔
عیسٰی نگری کے ایک اور رہائشی سلامت مسیح بتاتے ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کو ملنے آئے تھے۔ لیکن گزشتہ روز جس طرح قرآن کی بے حرمتی کی گئی وہ یقیناً ناقابلِ برادشت ہے جس پر ہر کسی کو دکھ ہے۔ لیکن اگر ایک قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی گئی تھی تو کیا اُس کا یہ جواب تھا کہ درجنوں بائبل جلا دی جائیں۔
مسیحی برادری کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو کہتے ہیں کہ جڑانوالہ کا واقعہ ریاست کی ناکامی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صبح ساڑھے سات بجے پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی گئی، لیکن پولیس ساڑھے نو بجے تک بھی جائے وقوعہ پر نہیں پہنچی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح نو مئی کے واقعہ میں ملوث لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُسی طرح مسجد، مندر اور گرجا گھر تو ان سب سے مقدس ہیں۔ لہذا ریاست اِس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے۔
جڑانوالہ میں رہائش پذیر تقریباً تمام مسیحی اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر خود سے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو چکے ہیں جن کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
پولیس کے مطابق اُنہوں نے گرجا گھر اور مکانات کو جلائے جانے پر دو الگ الگ مقدمات درج کیے ہیں جن میں درجنوں افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز فیصل آباد ڈاکٹر رضوان احمد خان کے مطابق مرکزی ملزم تو مفرور ہے لیکن اب تک 100 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، مزید کی تلاش جاری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے گرجا گھروں اور مسیحی آبادیوں کو جلائے جانا کا واقعہ اِس قدر بڑا تھا کہ مقامی پولیس اُس پر قابو نہیں پا سکی۔
اُن کا کہنا تھا کہ واقعہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے پولیس کی اضافی نفری کو فیصل آباد سے بلوایا گیا۔
اہلِ علاقہ بتاتے ہیں کہ جلوس اِس قدر غصے میں تھا کہ وہ کسی عورت، کسی مرد، کسی بچے کسی بوڑھے فرد کی کوئی بات نہیں سن رہے تھے۔ بس ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا کہ جلا دو۔
اہلِ علاقہ کے مطابق آگ بجھانے کے لیے ریسکیو 1122 کی گاڑیوں اور اُن کے سامان کو مشتعل افراد نے روکے رکھا۔
متاثرہ مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں اقلیت میں ہیں لیکن پاکستان کا آئین اور قانون اُنہیں برابر کے حقوق دیتا ہے اور ریاست کی جانب سے یہ حقوق ہمیشہ زبانی ہی کیوں رہتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں اس نوعیت کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی ہیں اور حکومت کو سفارشات کرتی رہتی ہیں کہ اِس معاملے کو سنجیدہ لیا جائے۔