سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ انہیں کوئی کچھ بھی کہہ لے وہ نہیں مانیں گے اور ایسا ہی ہوا ۔ وہ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور چیف جسٹس کے اشاروں اور وکلا کی درخواستوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بینچ چھوڑ کر چلے گئے۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف عمران خان، سول سوسائٹی، اعتزاز احسن اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواستوں پر سماعت کے لیے بدھ کو جب سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل دیا گیا تو اس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے نام دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کیوں کہ گزشتہ کئی ماہ سے جسٹس فائز عیسیٰ سینئر ترین جج ہونے کے باوجود کسی بینچ میں شامل نہیں تھے۔
جمعرات کو جب سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے کمرۂ عدالت میں وکلا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ابھی انہوں نے کیس کا باقاعدہ آغاز کرنا ہی تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ اپنی نشست پر کچھ آگے ہوئے اور بولے کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں۔
اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں بھی خوشی کا اظہار کرنے دیں جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا آپ خوشی کا اظہار باہر کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی سیاسی فورم نہیں ہے۔
اس کے بعد اگلے 26 منٹ تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدالت میں بولتے رہے اور ان کے ساتھی ججز سامنے پڑے کاغذوں کو دیکھتے رہے یا پھر جسٹس فائز عیسیٰ کی گفتگو توجہ سے سنتے رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قاضی فائز عیسیٰ کو کسی بھی موقع پر روکنے کی کوشش نہ کی۔بعض مواقع پر اگر انہوں نے چیف جسٹس کے دیے گئے فیصلوں پر اعتراض کیا تو بھی عمر عطا بندیال نے کوئی ردِعمل نہ دیا اور خاموشی سے تمام گفتگو سنتے رہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا ذکر کیا اور کہا کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے۔ اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے۔ گزشتہ شام مجھے کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا۔
اس کے بعد جسٹس فائز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے جاری سرکلر اور انکوائری کمیشن کا بھی ذکر کیا جسے عدالت نے کام کرنے سے روک دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میرے دوست مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنی عقل پر فیصلے کروں گا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کسی فیصلے پر رائے نہیں دے رہا لیکن فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملہ میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)عمران خان کی پہلی درخواست تھی جس پر اعتراض لگا جب کہ جواد ایس خواجہ کی آخری پٹیشن تھی جسے پہلے نمبر پر رکھا گیا۔
انہوں نے بینچ سے الگ ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ "جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں اس بینچ کو عدالت ہی نہیں مانتا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، ججز کو زحمت دی۔"
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری رائے کو یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نے کیس سننے سے انکار کر دیا۔ میرا مؤقف ہے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔
اس دوران چیف جسٹس کے بائیں جانب پہلے نمبر پر بیٹھے جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس فائز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ان درخواستوں کو سنا جائے۔ اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تواس کیس کی اپیل کو آٹھ جج کیسے سنیں گے۔
اس پر سردار لطیف کھوسہ بولے کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے جس پر سردار طارق مسعود بولے یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔
اس موقع پر اعتزاز احسن آگے بڑھے اور انہوں نے دونوں ججز کو بینچ سے الگ ہونے سے رکنے کے لیے کہا کہ آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، اگر میں اتفاق بھی کروں تو کہوں گا آپ بینچ میں بیٹھ جائیں۔
ان کی بات پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بڑے قانون دان اور سینئر ہیں، اعتزاز احسن آپ کہتے ہیں میں اس بار اپنا حلف توڑ دوں؟ اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ کا مؤقف درست ہے لیکن یہ ایک گھر کی مانند ہے جس پر جسٹس فائز نے کہا کہ اعتراز احسن یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے، میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں۔
اس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اپنی نشست سے اٹھ گئے اور ساتھ ہی باقی ججز بھی اٹھے اور باہر نکل گئے اور بینچ ٹوٹ گیا۔
SEE ALSO: ہیومن رائٹس کمیشن کی ملٹری ٹرائلز کی مخالفت؛ 'معاملات سویلینز کے پاس ہی رہنے چاہئیں'بینچ ٹوٹنے سے پہلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال بار بار کہتے رہے کہ ہم دیکھتے ہیں، اس سے یوں لگ رہا تھا کہ شاید وہ جسٹس فائز کو منانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور کچھ دیر بعد عدالتی عملہ کی طرف سے ڈیڑھ بجے سات رکنی بینچ کی سماعت کا اعلان ہو گیا۔
ڈیڑھ بجے سماعت شروع ہوئی تو آغاز میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں ماضی میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ اس وجہ سے میرے بینچ میں بیٹھنے پر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو ابھی بتا دیں۔ اس پر اٹارنی جنرل، اعتزاز احسن اور باقی وکلا نے بھی کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ نے سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کرنے کے خلاف اپنے دلائل کا آغاز کیا اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا۔
لطیف کھوسہ کے دلائل جاری تھے کہ چیف جسٹس نے عدالت کی کارروائی کو کل تک مؤخر کرنے کا اعلان کیا۔اس پر لطیف کھوسہ نے درخواست کی کہ اس معاملے پر حکم امتناع جاری کیا جائے لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اٹارنی جنرل کو سنے بغیر ہم ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کریں گے۔
عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد باہر نکلے تو سینئر وکیل انعام الرحیم باہر ملے اور بولے آج عمران خان فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواست لے کر آئے ہیں لیکن اپنے دور میں 25 افراد کے ٹرائل کا کیا جواب دیں گے؟