سابق ویزِ اعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد انہیں عدالتوں سے ایک اور ریلیف مل گیا ہے اور اب ان کے خلاف صرف ایک ریفرنس العزیزیہ باقی رہ گیا ہے۔
اس ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ مگر بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف یہ ریفرنس بھی جلد ختم ہو جائے گا جس کے بعد نواز شریف پر انتخابی سیاست کے بند دروازے ایک بار پھر کھلنے کا امکان ہے۔
بدھ کا روز نوازشریف کے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے لیے مقرر تھا اور ایسے آثار نہ تھے کہ آج ہی نوازشریف کے حق میں فیصلہ بھی آجائے گا۔
دن دو بجے سماعت کا وقت مقرر تھا لیکن آج کمرہ عدالت کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس کی نفری اور سختی دیکھ کر حیرت ہوئی۔ رجسٹرار آفس سے بنے خصوصی پاسز ہونے کے باوجود تھرڈ فلور جہاں چیف جسٹس کی عدالت ہے وہاں جانے والے تمام لوگوں کو روک دیا گیا۔
اس دوران سابق وزیرداخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال آئے تو پولیس والوں نے انہیں جانے دیا جس پر ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی کہ احسن اقبال کو بغیر پاس جانے دیا جارہا ہے جب کہ پاسز والوں کو روکا جا رہا ہے۔
لیکن اس معمولی تنازعہ کے کچھ دیر بعد ایک سینئر افسر کی مداخلت پر صحافیوں اور کیس سے منسلک چند لوگوں اور چند سیاسی قائدین کو کمرۂ عدالت کی طرف جانے کی اجازت مل گئی۔
اس سختی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رجسٹرار آفس سے صرف 48 پاسز جاری کیے گئے تھے اور عدالت میں کل 60 کے قریب لوگ موجود تھے ورنہ اس سے قبل کی سماعتوں میں تین سے چار سو لوگ آیا کرتے تھے۔
کمرۂ عدالت میں سماعت شروع ہوئی اور نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دینا شروع کیے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اپیل منظور کر کے بری کیا گیا۔شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے۔
امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ بے نامی ، اعانت جرم اور زیر کفالت سے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں تشریح کی ہے۔ آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے۔ معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ نائن اے فائیو کا جرم ثابت کرنے کے لیے تمام تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔اس کیس میں جرم ثابت کرنے کے لیے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر امجد پرویز کے دلائل پر چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر احتشام قادر سے کہا کہ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔آپ اسے نوٹ کرلیں۔ ہم اس پر آپ سے جواب لیں گے۔
اس پر احتشام قادر نے کہا کہ جی بالکل ہم نوٹ کررہے ہیں۔ اس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا آپ کہاں نوٹ کررہے ہیں، آپ کے ہاتھ میں تو پین ہی نہیں ہے۔ اس پر عدالت میں قہقہے لگنے لگے۔
ایک گھنٹے کی سماعت کے بعد امجد پرویز نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کیے گئے تھے۔ اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی؟ ہم سمجھ رہے ہیں ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی۔ ریفرنس دائر ہوگیا، سزا بھی ہوگئی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز کی بریت کے فیصلے کے خلاف نیب نے اس وقت اپیل نہیں کی تھی۔ اب وہ فیصلہ حتمی ہے اس پر ہم دلائل نہیں دے سکتے تو عدالت نے کہا کہ پھر اس کو منظور کرلیں؟ اس پر پراسیکیوٹر نیب نے کوئی جواب نہ دیا۔
نیب کی طرف سے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی تھی اور اس بارے میں درخواست عدالت میں جمع کروا رکھی تھی۔ لہٰذا عدالت نے فیصلہ سنانا شروع کردیا اور کچھ ہی دیر میں عدالت نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی دی گئی سزا کالعدم قرار دے دی اور انہیں مقدمے سے بری کردیا۔
عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
فیصلہ سننے کے بعد نواز شریف اسحاق ڈار سے گلے ملے اور اس موقع پر ان کے اردگرد موجود سیاسی قائدین اکٹھے ہوگئے اور انہیں مبارک باد دینے لگے۔
صحافی بھی آگے بڑھے اور ایک بڑے فیصلے پر ان کا ردعمل جاننا چاہا تو مسکراتے ہوئے نوازشریف نے صرف اتنا کہا کہ اللہ کا کرم ہے۔ شکرہے اس مالک کا، میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا تھا اور آج میں سرخرو ہوا۔ جب پوچھا کہ العزیزیہ کے بارے میں کیا کہیں گے تو نوازشریف مسکراتے ہوئے بولے، وہ بھی اللہ پر چھوڑا ہوا ہے۔
کمرۂ عدالت سے باہر جاتے ہوئے ایک بار پھر وہی ہنگامہ آرائی اور دھکم پیل، نواز شریف کے قریب ہونے کی کوشش اور ان کے گارڈز کی طرف سے سب لوگوں کو دور کرنے کی کوشش جاری تھی۔
اسی دھکم پیل میں نوازشریف باہر پہنچے اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ باہر شاہراہِ دستور پر نواشریف کے ورکر ان کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے رہے۔
نواز شریف کی بریت اور سزا کالعدم ہونے کا منظر دیکھ کر مجھے چھ جولائی 2018 کا دن یاد آگیا جب نوازشریف کو مشکلات کا سامنا تھا اور احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ لیکن اس دن نواز شریف عدالت میں موجود نہ تھے اور وہ لندن میں مقیم تھے۔
چند دنوں بعد ہی نوازشریف اس کیس میں گرفتاری دینے پاکستان پہنچے تھے جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ اس دن نواز شریف کے حمایتی کارکنوں کو احتساب عدالت کے باہر پہنچنے نہیں دیا جارہا تھا اور سخت سیکیورٹی تھی۔
سیکیورٹی آج بھی سخت تھی لیکن آج کارکن نعرے لگا رہے تھے اور نوازشریف مسکراتے چہرہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے ہاتھ ہلا رہے تھے اور بدلے ہوئے وقت سے محظوظ ہورہے تھے۔