پاکستان کے صوبے سندھ میں آئے سیلاب کو اب چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جس پر سب کے ذہن میں پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ اب وہاں کیا حالات ہیں؟
سماجی تنظیموں کے مطابق امدادی کام اب سست روی کا شکار ہے کیوں کہ غیر ملکی امداد آنے کے بعد لوگ اب سیلاب کو کسی حد تک بھول چکے ہیں۔ تو اب اس طرح سے مقامی امداد نہیں مل رہی جیسے پہلے مل رہی تھی۔
وائس آف امریکہ کی ٹیم نے صبح پانچ بجے کراچی سے لاڑکانہ کا سفر شروع کیا۔ ویران سڑ کیں ، گلیوں میں سناٹے، مساجد سے اذانِ فجر کی واضح آواز اس پہر خاصی بھلی معلوم ہورہی تھی۔ اس مصروف شہر کی زندگی کی گہما گہمی کم ہو تو دور سے بھی لاؤڈ اسپیکر پر آنے والی آواز کتنی صاف سنی جاسکتی ہے یہ اس وقت نظر آرہا تھا۔
پرندو ں کی چہچہاہٹ شروع ہوچکی تھی لیکن خنکی کے موسم میں سورج کا ابھی کہیں نام و نشان نہ تھا۔ سپر ہائی وے پر گاڑیوں کا رش اپنی جگہ تھا خاص کر سبزی منڈی کے اطراف پھلوں اور سبزیوں سے لدی گاڑیاں بس نکلنے کو تیار کھڑی تھیں۔
نیند سے بوجھل آنکھیں بار بار سندیسہ دے رہی تھیں کہ انہیں صاف منظر کو دیکھنے کے لیے ابھی کچھ اور آرام کی طلب ہے سو، ان کی بات مان لی گئی۔ ناشتے کے لیے جب گاڑی جامشورو پر رکی تب میری آنکھ کھلی۔ ہم کراچی شہر کے لوگ جنہیں ہر موسم ہی تاخیر سے نصیب ہوتا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ ایسا ہی ہوگا لیکن گاڑی سے باہر نکلتے ہی احساس ہوا کہ یہاں تو سردی آچکی ہے۔
ٹھنڈی ہوا نے جیسے ہی استقبال کیا تو حسبِ معمول ایک کے بعد ایک چھینک نے بتادیا کہ اب احتیاط کی اشد ضرورت ہے تاہم گرما گرم ناشتے اور چائے نے معاملہ سنبھال لیا۔
ہم اب جامشورو سے لاڑکانہ بنا کہیں رکے سفر کا ارادہ کر کے نکل پڑے۔ہمارا اندازہ تھا کہ بنا کسی رکاوٹ کے بارہ بجے تک لاڑکانہ پہنچ سکتے ہیں کیوں کہ ہائی وے پر کچھ مقامات پر کام جاری تھا، جس کے لیے ہمیں متبادل راستہ اختیار کرنا تھا۔
تقریباً 11بجے کے قریب ہم میہڑ پہنچ چکے تھے۔ لیکن سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں کھڑی نظر آئیں جس کی وجہ وہاں ہونے والا ایک احتجاج تھا۔ احتجاج کرنے والوں کے مطابق ان کے خاندان کے ایک فرد کو مبینہ پولیس تشدد کا نشانہ بناکر مار دیا تھا جس پر انھوں نے احتجاجا شاہراہیں رکاوٹیں لگا کر بند کردیں تھی۔
دیگر افراد کی طرح ہم بھی اس انتظار میں تھے کہ کب راستہ کھلے اور ہم آگے اپنی منزل پر پہنچیں۔ اس انتظار میں ہمیں دو گھنٹے گزر گئے اور اور ہمارے پیچھے بہت سی گاڑیوں کی قطار لگتی چلی گئی۔
بالاآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہاں سے واپس مڑا جائے اور گوگل کے بتائے ہوئے راستے سے جایا جائے۔ہمارے دائیں اور بائیں سڑک کے اطراف میں سیلاب کا پانی بتا رہا تھا کہ کبھی یہاں گاوں دیہات یا فصلیں ہوا کرتی تھیں جو اب ماضی کا حصہ بن چکیں۔
بحرحال ڈرائیور انتہائی کوششوں سے گاڑی کو سڑک کے درمیان کچے راستے پر اتار کر دوسری سڑک پر لانے میں کامیاب ہوگیا۔ ہم گوگل کے بتائے جس راستے پر گئے وہاں پر موجود کچھ مقامی افراد نے انکشاف کیا کہ جو راستہ آپ اختیار کرنے جارہے ہیں وہ موٹر سائیکل کے لئے تو موزوں ہے لیکن گاڑی کے لیے نہیں کیوں کہ وہ سیلاب کی وجہ سے جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا ہے۔ ایک بار گاڑی چلی گئی تو مڑنے کا راستہ بھی نہیں۔
گوگل کیا جانے کے یہاں چار ماہ کے سیلاب نے راستوں کا کیا حال کردیا ہے سو ہم نے گوگل کی سننے کے بجائے وہاں بسنے والوں کی سنی اور زمینوں پر قائم بند جو پانی کو روکنے کے لیے بنا تھا اس پر سفر کا آغاز کیا۔ یہ سفر آدھے گھنٹے جار ی رہا جس کے بعد احساس ہوا کہ ملیریا کے دوران جسم میں اٹھنے والے درد کچھ اسی طرح کے ہوتے ہیں جو اس سفر کے بعد محسوس ہونے لگے۔
اس کچے راستے جسے پگڈنڈی بھی کہا جاسکتا ہے اس سے گزر کر ہم ایک گنجان آبادی میں داخل ہوئے جہاں شدید ٹریفک جام ملا۔ ہر شخص غلط سمت سے آرہا تھا اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے اس پر بضد تھا کہ اسے ہی جانے کا راستہ دیا جائے یہاں بھی تیس سے چالیس منٹ یوں ہی ضائع ہوگئے۔
میں بار بار گھڑی کو بے بسی سے دیکھتی کیوں کہ چانڈکا میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں بیٹھے ایک ڈاکٹر صاحب ہماری راہ تک رہے تھے۔ ان کی ڈیوٹی ختم ہوئے کافی وقت ہوچکا تھا اور ہم ابھی تک راستے تلاش کر رہے تھے۔
آخر کار اس رش سے نکل کر ہم واپس میہڑ ہی قومی شاہراہ پر آئے لیکن احتجاجی اب کہیں دور تھے اور ہمارا سفر شروع ہوچکا تھا۔ دوپہر تین بجے ہم لاڑکانہ شہر میں داخل ہوئے۔ وہ شہر جو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں کے این اے 200 کی نشست پر سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کامیاب ہوکر قومی اسمبلی پہنچے ہیں۔
میں لاڑکانہ دوسری بار گئی تھی پہلی بار رات کے اندھیرے میں شہر کو ٹھیک سے دیکھنے کا موقع نہ مل پایا تھا۔ لیکن اس بار اس شہر میں قیام تھا تو میری دلچسپی پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔
اسپتال پہنچنے پر ہماری ملاقات ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر عبدالکریم میمن سے ہوئی، کچھ اہم معلومات حاصل کرنے کے بعد ہم وہاں سے اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ چوں کہ یہ ہوٹل اپنی لوکیشن کے اعتبار سے اس شہرکا سب سے اچھا ہوٹل تصور کیا جاتا ہے تو ہم نے یہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے ویٹرز اور اسٹاف آپ کی ضرورت کو ایسے ہی نظر انداز کرتے ہیں جیسے وڈیرے اپنے ہاریوں کی درخواست کو۔
اگلی صبح رتو ڈیرو کی روانگی تھی جہاں ایچ آئی وی ایڈز ٹریٹمنٹ سینٹر پہنچنا تھا یہاں ہماری ملاقات یہاں ایسے والدین سے ہوئی جن کا گھر بار سیلاب کی نذر ہوچکا تھا لیکن وہ رتو ڈیرو کے نواح میں گوٹھ لعل بخش مہیسر سے نقل مکانی کرتے وقت اپنی پانچ سالہ بیٹی کی دوائیں لے کر انجانے راستوں پر گامزن تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اپنے تباہ شدہ مکان سے کہیں دور یہ خاندان پہلے شاہراہ پر 15 روز رہا۔ اس کے بعد اب وہ عارضی طور پر کہیں کرائے کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بچوں کے اسکول زیرِ آب علاقے میں تھے اس لیے تاحال وہ ابھی بھی تعلیم سے محروم ہیں۔
فریدہ تاج کا کہنا تھا کہ میری بڑی بیٹی اور بیٹے کو اسکول نہ جانے کا غم ستا رہا ہے وہ بار بار پوچھتے ہیں کہ ہم اپنے گھر کب واپس جائیں گے تاکہ ہماری پڑھائی دوبارہ شروع ہوسکے۔ فریدہ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ اپنی پانچ سالہ بیٹی کے لیے اگلے تین ماہ کی ادویات لینے آئیں تھیں جو ایچ آئی وی کا شکار ہے۔
رتو ڈیرو میں 2019 کے بعد سے اب تک ایچ آئی وی سے سب سے زیادہ متاثر بچے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی بھی استعمال شدہ سرنج اور بنا ٹیسٹ کیے خون کی منتقلی کا عمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔
رتوڈیرو سے واپسی پر ہمیں بہت سے گوٹھ سیلاب کے پانی سے زیر آب نظر آئے۔ ایک ایسے ہی گوٹھ میں رک کر میں تصاویر بنا رہی تھی کہ 70 سالہ لیاقت علی تیز قدموں سے ہماری جانب آئے۔ ان کا پہلا سوال اس علاقے میں ہماری موجودگی کی وجہ سے متعلق تھا۔ ہم نے انہیں آنے کا مقصد بتایا تو گفتگو کا آغاز ہوگیا۔
"آپ یہاں آسکتی ہیں تو سرکار کیوں نہیں آتی؟ یہ پیپلز پارٹی کا علاقہ ہے یہاں سے انہیں تین دہائیوں سے ووٹ مل رہا ہے۔ یہ دیکھیں ہماری زمینوں کا حال، پانی ابھی تک کھڑا ہے جب تک پانی نہیں اترے گا ہم اگلی فصل کی کیا بوائی کریں گے؟ میرے بیٹے پڑھے لکھے ہیں انہیں نوکریاں نہیں ملیں، تو میں نے انہیں بھی زمین پر ساتھ لگا لیا اب تو یہ حال ہے کہ ہم سب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔"
اس بات چیت کے دوران لیاقت علی کے بیٹے بھی آگئے۔ بات چیت سے معلوم ہوا کہ لیاقت علی ریٹائرڈ ٹیچر ہیں اور نو بیٹوں کے باپ ہیں۔ ان کے آٹھ بیٹے گریجویٹ ہیں اور ایک کالج میں زیرِ تعلیم ہے۔ لیاقت علی جس اسکول میں پڑھاتے تھے وہ بھی سیلاب کے پانی سے ڈوبا ہوا نظر آرہا تھا۔ ان کا خاندان 40 افراد پر مشتمل ہے جس میں بیٹے، بہوئیں، پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ سب کی فکر سیلاب کے بعد نہ ہونے والی بحالی اور موسم سرما کی آمد ہے۔
لیاقت علی سے بات چیت کے بعد جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر آگے روانہ ہونے لگے تو ہمارا راستہ ایک بوڑھی خاتون نے روک لیا۔ ان کے ہاتھوں اور چہرے کی جھریاں صاف بتارہی تھیں کہ ان کی عمر 80 برس کے لگ بھگ ہوگی۔
'سیلاب سے تو بچ گئے پر اب سردی اور بھوک سے مر جائیں گے'
انہوں نے ہماری گاڑی رکتے ہی پہلا مطالبہ راشن کا کیا جب پتہ چلا کہ ہم امداد دینے والوں میں سے نہیں بلکہ صحافی ہیں تو انہوں نے فوراً کہا کہ بیٹی تم لکھنا کہ "ہمیں سرکار نے کچھ نہیں دیا نہ خیمہ نہ راشن، سنا ہے غیر ملکیوں نے بہت کچھ بھیجا ہے پتہ نہیں یہ ہمیں کیوں نہیں دیتے، کب دیں گے؟ جب ہمارے بچے مر جائیں گے؟ ہم سیلاب سے تو بچ گئے پر اب سردی اور بھوک سے مر جائیں گے۔ تم کو قسم ہے لکھنا کہ مائی کو کچھ نہ ملا یہ دیکھو میں کیسے بیٹھی ہوں۔"
اس سفر کے آغاز میں بھی مجھے بہت کچھ بہتر نظر نہیں آرہا تھا۔ لیکن اس بے بس بوڑھی عورت کی فریاد اور سوال پر میری نگاہیں اب صرف ایسے خیمے ہی ڈھونڈ تی رہیں ہیں جو میرے دل کو یہ تسلی دے سکیں کہ ہاں میں نے کچھ ایسا دیکھا ہے جو پہلے سے مختلف ہے۔ اس تلاش میں ہماری گاڑی لاڑکانہ شہر میں داخل ہوگئی اب میں اس شہر کو بغور دیکھ رہی تھی۔
رائس کینال میں پڑا کوڑا کرکٹ، پرانی سڑکیں، ایک پل جو جانے والی ٹریفک کے لیے کبھی بنا ہوگا لیکن اب لوگوں نے اس کو دو طرفہ پل کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ جو کسی بھی خوف ناک حادثے کو جنم دے سکتا تھا۔
SEE ALSO: لاڑکانہ: رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی سے اب بھی بچے سب سے زیادہ متاثرلیکن یہاں تو کیا مجھے پورے شہر میں کسی ایک بھی سڑک پر ٹریفک کانسٹیبل کا وجود دکھائی نہ دیا۔ نہ اس شہر میں کوئی تھیم پارک تھا نہ ہی کوئی ایسا باغ جہاں پہنچ کر آپ سارے دن کی تھکان بھول جائیں۔
ذولفقار علی بھٹو مرحوم، محترمہ بے نظیر اور پھر مرتضی بھٹو کے زیر استعمال رہنے والا آبائی اور تاریخی گھر المرتضی ہاوس جس نے عالمی سیاسی شخصیا ت کے استقبال اور قیام کا اعزاز رکھا ہے۔ اب اکھڑے رنگ و روغن اور ویرانی کی تصویر بنے لاڑکانہ میں کھڑا نظر آرہا تھا۔ یہ پاکستان کے وزیر خارجہ کا حلقہ ہے جسے پیپلز پارٹی مستقبل کا وزیر اعظم دیکھ رہی ہے۔ ان کا حلقہ کیسا ہونا چاہیے اور کیا نظر آرہا ہے یہ مجھے اب دن کی روشنی میں دکھائی دے رہا تھا۔
ہاں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غیر ملکی امدادی خیمے تلاش کرتی نظروں نے اگر کچھ دیکھا تو وہ سنگ مرمر سے مزین گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے شہدا کا وہ مزار تھا جہاں ملک کے دو ایسے وزرائے اعظم مدفون ہیں جن کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔
سورج کی اس مزار کے گنبدوں پر پڑنے والی کرنیں سیلاب سے متاثرہ صوبے میں اب بھی اس کو سب سے نمایاں دکھائی دینے کے لیے کافی تھیں۔شام ڈھل چکی تھی لیکن کئی سوالات کے جوابات لیے بنا ہی اس شہر کا سفر بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔