رسائی کے لنکس

لاڑکانہ: رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی سے اب بھی بچے سب سے زیادہ متاثر


سیلاب نے جب بستیوں پر یلغار کی تو ہر کوئی کسی جائے پناہ کی تلاش میں مال اسباب سمیٹ رہا تھا لیکن فریدہ تاج کسی قیمتی زیور کی طرح اپنی بیٹی کی دوا تلاش کرکے سینے سے لگائے گھر سے نکلی تھیں۔ ان کے لیے اس وقت گھر میں سب سے بیش قیمت سرمایہ یہی تھا کیوں کہ آگے نہ جانے کیا حالات ہونے والے تھے اور ان کی بیٹی ایڈز کی مریض ہے۔

صوبۂ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ رتوڈیرو کے نواحی گوٹھ لعل بخش مہیسر کی رہائشی فریدہ تاج کی پانچ سالہ بیٹی بے بی بچل ڈیڑھ برس قبل ایچ آئی انفیکشن سے متاثر ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد ان کے پورے خاندان کی اسکریننگ ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں صرف ایک ہی فرد اس بیماری سے متاثر ہے۔

سیلاب کے سبب فریدہ اور ان کے شوہر ان دنوں اپنے آبائی گھر سے محروم ہیں اور کرائے کے مکان میں اپنے تین بچوں کے ساتھ مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد تاج کا کہنا تھا کہ سیلاب سے قبل ان کا اچھا گزر بسر ہورہا تھا لیکن اب بہت مالی تنگی کا سامنا ہے۔

وہ اپنی بیوی اور ایچ آئی وی سے متاثرہ بچی کو لے کر چنگچی رکشے پر ایک گھنٹے کا سفر طے کر کے رتوڈیرو کے ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر پر پہنچے تھےجس کا کرایہ انھوں نے ایک ہزار روپے ادا کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب سیلاب آیا تو ان کی بیٹی کی دوائیں ختم ہونے والی تھیں۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا لیکن وہ کسی بھی طرح یکم ستمبر کو سینٹر پہنچے اور تین ماہ کی ادوایات لے کر گئے۔ آج وہ اس کے فالو اپ اور اگلے تین ماہ کی دوا لینے کے لیے یہاں آئے ہیں۔

’پاکستان میں مریض کم لیکن خطرہ موجود ہے‘

عالمی ادارہ صحت کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تین کروڑ 84 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن میں 17 لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثر مریضوں کی تعداد 183705 بتائی جاتی ہے۔ لیکن 2019 میں سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے شہر رتوڈیرو میں آنے والے آوٹ بریک پردنیا کی توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب ابتدائی دنوں میں11 سو افراد میں ایچ آئی وی پازیٹیو کی تصدیق ہوئی جس میں 900بچے بھی شامل تھے۔

سندھ میں ایڈز کے مریضوں میں اب بھی ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔
سندھ میں ایڈز کے مریضوں میں اب بھی ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی علاقے سے ایچ آئی وی کے کیسز سامنے آئے تو رتو ڈیرو سمیت پورے صوبے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔

عالمی ادارۂ صحت، یونیسیف، محکمۂ صحت سندھ نے تیزی سے مرض کے پھیلاؤ کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔

ابتدائی تحقیقات میں ایک کردار سامنے آیا جو اس علاقے کا ڈاکٹر مظفر گھانگرو تھا جسے اس شبے پر گرفتار کیا گیا کہ وہ استعمال شدہ سرنج استعمال کرتا ہے اور اسی کے سبب یہ آوٹ بریک ہوا۔

لیکن اس علاقے میں ایڈز کے تیز پھیلاؤ کی وجہ محض ڈاکٹر مظفر کا کردار نہیں تھا۔ یہاں ایسے عطائیوں، حجاموں اور معالجین کی کمی نہیں جو استعمال شدہ سرنجوں اور بلیڈز کو دوبارہ کام میں لانے کو خطرہ ہی نہیں سمجھتے۔ ان کی اس مجرمانہ لاپروائی کے باعث کئی سال سے لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی تھیں اور یہ خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔

ان عوامل کے علاوہ غربت اور تعلیم کی کمی بھی اس مرض سے متعلق آگاہی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔جب کہ ایڈز کی روک تھام کا سب سے مؤثر طریقہ ہی احتیاطی تدبیر سے آگاہی ہے۔

سیلاب نے ایچ آئی وی مریضوں کو کیسے متاثر کیا؟

رواں برس آنے والے سیلاب نے سندھ بھر کے بنیادی صحت کے مراکز اور اسپتالوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں سوال مزید سنگینی اختیار کرچکا تھا کہ جب معمول کے علاج معالجے کی سہولتوں تک رسائی مشکل ہورہی ہے تو ایڈز سے متاثرہ افراد، جن کی زندگی کا انحصار ہی دواؤں پر ہے، ان تک ادویہ کیسے پہنچی ہوں گی؟

اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہم نے کراچی سے لاڑکانہ اور پھر رتو ڈیرو کا سفر کیا۔ لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر عبدالکریم میمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت سینٹر میں رجسٹرڈ مریضو ں کی تعداد 2634 ہے جن میں 1874 مرد، 706 خواتین اور 43 ٹرانس جینڈر شامل ہیں۔

سیلاب کے دوران 350 ایسی فیملیز جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ایچ آئی وی سے متاثر ہے وہ اب اپنے مستقل پتے سے کہیں اور جا بسے ہیں لیکن ان کا بھی علاج جاری ہے۔

ڈاکٹر عبدالکریم کا کہنا ہے کہ کراچی کے سول اسپتال میں قائم سینٹر کے بعد دوسرا بڑا سینٹر ہے۔ یہاں پر صرف سندھ ہی نہیں، بلوچستان کے چار پانچ اضلاح سے بھی مریض آتے ہیں۔ سینٹر تسلسل سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور یہاں سے2007 میں تشخیص ہونے والا پہلا مریض اب بھی یہاں سے دوائیں لے رہا ہے۔

اسی سینٹر میں ایچ آئی وی کے ایسے متاثرین کو بھی علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جو ہیپاٹائٹس بی اور سی، ڈائلیسز، ٹی بی میں مبتلا ہیں۔

ڈاکٹر شاہدہ حفیظ میمن کے مطابق 2019 سے 2022 کے دوران اب تک 135 افراد اس بیماری کے سبب ہلاک ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر شاہدہ حفیظ میمن کے مطابق 2019 سے 2022 کے دوران اب تک 135 افراد اس بیماری کے سبب ہلاک ہوچکے ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ مریضوں تک ادویات کیسے پہنچیں ؟

رتو ڈیرو میں 2019 کے آوٹ بریک کے بعد محکمۂ صحت سندھ کے تحت کام کرنے والا کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کا قائم کردہ سینٹر فعال ہوا۔ اس سینٹر میں اس وقت بھی خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیادوں پر معائنے اور ٹیسٹنگ کے لئے آتی ہے۔

اس سینٹر کی انچارج ڈاکٹر شاہدہ حفیظ میمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2019 سے 2022 کے دوران اب تک 135 افراد اس بیماری کے سبب ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بچوں اور بزرگوں کی تعداد نمایاں ہے۔

اس سینٹر میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 2178 ہے جن میں 1435 بچے شامل ہیں۔ ان ہی مریضوں میں 497 حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر شاہدہ کے مطابق جب سیلاب آیا تو اس وقت سب سے بڑا چیلنج مریضوں تک بروقت ادویات کی فراہمی کا تھا۔ جس کے لئے سی ڈی سی کی جانب سے قائم کردہ ہیلپ لائن نے ان کی مشکل کو قدرے آسان کیا۔

اس وقت یا تو مریض خود رابطہ کرتے تھے یا پھر ہمارے پاس مہینے کے آخر میں ایک لسٹ سامنے آتی تھی جو ہمیں بتاتی تھی کہ سسٹم کے مطابق کس مریض کا فالو اپ ہے اور دوائیں دینی ہیں ۔

اس پر ہم اس لسٹ میں دیے گئے ایم آر نمبر اور رابطہ نمبر سے مریض سے رابطہ کرتے تھے۔ اگر اس کا فون بند ملے تو اس کے قریبی گاؤں،جہاں سے کوئی اور مریض بھی ہمارے پاس آتا ہو، ہم اس سے رابطہ کرتے تھے۔

ڈاکٹر شاہدہ کے مطابق کئی مریض جو سیلاب کے باعث نقل مکانی کر گئے انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہم کسی ایسی جگہ ہیں جہاں سے اسپتال آنا ممکن نہیں تو ہم نے ان کی جگہ معلوم کر کے انھیں دوائیں کشتیوں کے ذریعے بھی بھجوائیں۔

کچھ ایسے مریض تھے جو دوسرے شہر منتقل ہوگئے انھیں ہم نے کہا کہ وہ اس جگہ موجود دوسرے سینٹر سے اپنی دوائیں لے سکتے ہیں۔ ہم دوسرے سینٹر میں اپنے مریض کا ریکارڈ دیتے اور انھیں وہاں سے دوائیں مل جاتی تھیں۔

سیلاب سے سندھ میں بنیادی صحت کے مراکز متاثر ہونے کے باعث علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔
سیلاب سے سندھ میں بنیادی صحت کے مراکز متاثر ہونے کے باعث علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔

انہوں ںے بتایا کہ سیلاب کے دوران ہم نے اپنا سینٹر ایک روز بھی بند نہیں ہونے دیا اور اپنا کام جاری رکھا۔ کیوں کہ مریض جیسے تیسے پہنچ رہے تھے یہ ضرور ہوا کہ کچھ والدین اپنے بچوں کو نہیں لائے کیوں کہ راستے بہت خراب تھے۔ لیکن اس وقت ہمارا کوئی بھی مریض دوا کے بغیر نہیں ہے۔

اب رتو ڈیرو پہلے جیسا نہیں رہا؟

ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں اس بیماری کا بہت خوف تھا کیوں کہ لوگ اس حوالے سے آگاہ ہی نہیں تھے۔ اب نہ صرف اسکریننگ کی طرف آرہے بلکہ اس بیماری کو قبول بھی کر رہے ہیں اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ اس کے ساتھ زندگی گزر سکتی ہے۔ ان کے بقول، 2019 کے مقابلے میں اب رتو ڈیرو تبدیل ہورہا ہے۔

ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر میں ایڈوکیسی اینڈ اوئیر نیس پروگرام کے پراجیکٹ منیجر عبد الصمد کا کہنا تھا کہ لوگوں کے ذہن میں تھا کہ یہ بیماری صرف اور صرف غیر محفوظ جنسی تعلقات یا خون سے ہی منتقل ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف آگاہی سیشن اور کاونسلرز کی مدد سے لوگوں میں شعور آگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی مریض کا ٹیسٹ مثبت آجائے تو بہرحال پریشان تو وہ ہوگا لیکن اگلا سوال یہی ہوگا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے؟ اس آؤٹ بریک کے بعد کمیو نٹی کے ساتھ حجام، نرسنگ اسٹاف، ٹرانس جینڈرز، سیکس ورکرز کو بھی آگاہی دی گئی کہ یہ بیماری کس طرح پھیلتی ہے اور کیا احتیاط لازمی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اب بھی کیسز کا سامنے آنایہ بتاتا ہے کہ اتائی اور بے احتیاطی کرنے والے اب بھی ہمارے درمیان کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کو معاشرے میں درپیش مسائل کے پیش نظر سی ڈی سی اسکولوں میں بھی پرنسپلز، اساتذہ کے ساتھ آگاہی سیشنز کروارہا ہے تاکہ متاثرہ بچے اسکولوں سے باہر نہ رہیں۔

انہیں بھی دیگر بچوں کی طرح تعلیم کا حق حاصل ہو اور معاشرہ انہیں قبول کرے ۔اب تک 150 سے زائد بچے اسکولوں میں دی جانے والی آگاہی کے بعد نہ صرف پڑ ھ رہے ہیں بلکہ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔

چبھتے سوال اور تکلیف دہ رویے

لعل بخش مہیسر گوٹھ کی فریدہ تاج کہتی ہیں کہ اب بھی لوگ طرح طرح کے چھبتے ہوئے سوال پوچھتے ہیں۔ تکلیف دہ رویوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ باتیں سننا پڑتی ہیں کہ ان سے نہ ملو ان سے دور رہو۔

وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی ہیں:’’یہ باتیں دل دُکھاتی ہیں لیکن یہ تو میری اپنی بیٹی ہے۔ اسے چھوڑ تو نہیں سکتی، میں آج تک یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ نہ جانے کہاں سے میری بچی کو یہ بیماری لگی کیسی لگی۔‘‘

فریدہ سلائی کا کام کرتی ہیں تاکہ اس سے ہونے والی آمدن سے اپنی بیٹی کی خواہشات پوری کرسکیں اور اچھی خواراک دے سکیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی کبھی کبھی پوچھتی ہے کہ ’میں یہ دوا کیوں کھاؤں،میں تو ٹھیک ہوں۔‘ تو فریدہ اسے پیار سےسمجھاتی ہیں کہ یہ دوا طاقت کی ہے اور اس سے تم بہادر بنو گی تو پھر وہ کھا لیتی ہے۔ لیکن جب بھی اسپتال آنا ہو تو وہ رونے لگتی ہے۔

وہ بتانےلگیں: ’’آج بھی میں اسے یہ کہہ کر لائی ہوں کہ جب ہم اسپتال سے گھر جائیں گے تو میں تمہیں نئے کپڑے سی کر دوں گی، ٹافیاں دلاؤں گی۔‘‘

ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو آج بھی اس بیماری کے باعث معاشرے کے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے اب بھی بہت سے افراد جو اس بیماری سے متاثر ہیں وہ اپنے اردگرد بسنے والوں سے اپنی بیماری چھپاتے ہیں۔

لیکن وہ بچے جن کی جینے کے لیے ایک عمر پڑی ہے، ان کے والدین کو اب بھی ایسے رویے اور سوالات کا سامنا ہے جو انھیں پریشان کیے رکھتے ہیں۔

تاہم معالجین کا کہنا ہے کہ اس مرض کا شکار ایسی بہت سی حاملہ خواتین جن کا علاج جاری تھا، ان کی پیدا ہونے والی اولادایچ آئی وی سے محفوظ بھی رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اسکریننگ کروالی جائے اور مریض دوائیں شروع کردے تو وہ ایک معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG