الیکشن کے دن ہوں تو صحافیوں کی کئی راتیں آنکھوں میں کٹتی ہیں۔ اگلے دن ہونے والی پولنگ کی کوریج کی منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد ووٹنگ، نتائج اور بعد کی صورتِ حال خبریں جمع کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
میری کیفیت بھی اس الیکشن سے قبل ایسی ہی تھی۔ بطور صحافی یہ میرا تیسرا الیکشن تھا جو میں کور کر رہی تھی۔ لیکن 2013 اور 2018 کے انتخابات کے بعد یہ پہلا الیکشن نظر آیا جس میں 8 فروری سے تین چار روز قبل بھی لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟
آٹھ فروری کی صبح چھ بجے کا الارم بجا اور میں نے صبح اٹھتے ہی الیکشن کی کوریج میں کام آنے والی تمام ڈیوائسز اور سامان ایک جگہ جمع کیا۔ تیاری پوری کرکے گھر سے نکلتے ہوے اندازہ تھا کہ آج کام شروع ہونے کا وقت تو ہے لیکن ختم ہونے کا نہیں۔
گھر سے نکلتے ہی پہلا جھٹکا یہ لگا کہ ملک بھر میں انٹر نیٹ سروس معطل ہوچکی تھی۔ جب کہ ایک روز پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کا یہ دعوی تھا کہ انٹر نیٹ بند نہیں کیا جائے گا۔
کوریج سے پہلے مجھے ووٹ ڈالنا تھا جس کے لیے میں اپنے کیمرامین کے ہمراہ حلقہ این اے 250، نارتھ کراچی کے ایک سرکاری کالج پہنچی۔ مجھے یہ گمان تھاکہ کراچی میں ویسے ہی لوگوں کی صبح دیر سے ہوتی ہے تو میں جب پہنچوں گی تو قطار میں نہیں لگنا پڑے گا۔
لیکن مجھے یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ کالج میں ووٹرز کا غیر معمولی رش تھا۔ جس پولنگ بوتھ میں میرا ووٹ تھا وہاں مجھ سمیت پانچ مزید خواتین موجود تھیں ۔ ووٹ ڈالنے کے بعد میری ملاقات اپنے پڑوسیوں سے ہوئی اور کچھ ایسے بزرگ افراد سے جو گھروں میں آرام کرنے کے بجائے ووٹ دینے آئے تھے۔
’یہ تکلیف ووٹ نہ دینے کا بہانہ نہیں بن سکتی‘
یہاں 80 سالہ محمد نصیر صدیقی سے ملاقات ہوئی جو اپنے دو پوتوں کے ساتھ ووٹ دینے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کے انہوں نے ہر الیکشن میں ووٹ دیا ہے اور جب تک زندگی ہے وہ یہ قومی فریضہ ادا کرتا رہیں گے۔
پولنگ اسٹیشن کے باہر رکشے کا انتظار کرنے والی مسز احمد اس حلقے میں ووٹ دینے کے لیے ساڑھے سات بجے سے موجود تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ فیڈرل بی ایریا سے نارتھ کراچی ووٹ دینے آئی ہیں جس کے لیے انھوں نے رات ہی سے یہاں آنے کے لیے رکشے والے سے بات کر رکھی تھی۔
مسز احمد جب رکشے میں بیٹھنے لگیں تو ان کے چہرے پر کرب واضح تھا جس پر انھوں نے بتایا کہ وہ گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہیں لیکن یہ بیماری ووٹ نہ دینے کا بہانہ نہیں بن سکتی۔
’ہمت ہے تمہاری جو ووٹ دینے آگئے‘
اس حلقے سے نکل کر رپورٹنگ کرنے کے لئے میرا انتخاب فیڈرل بی ایریا کا وہ علاقہ تھا جہاں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی رہائش گاہ ’نائن زیرو‘ واقع ہے۔
اس حلقے سے 2016 میں الطاف حسین سے راہیں جدا کرنے والی ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنما خالد مقبول صدیقی الیکشن لڑ رہے تھے۔ یہاں کے ایک سرکاری اسکول کے باہر لگ بھگ تمام نیوز چینلز کی ڈی ایس این جیز کے ساتھ رپورٹر لائیو ہٹ کے لیے کھڑے تھے۔
اس علاقے کی گہما گہمی الگ ہی دکھائی دے رہی تھی۔ چائے کے ہوٹلوں پر فیملیز کا رش تھا جو ووٹ ڈالنے کے بعد حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے بیٹھے تھے اور الیکشن پر بات چیت کر رہے تھے۔ یہ علاقہ آج سے نہیں 90 کی دہائی سے ہی "بھائی کا حلقہ" کہلاتا ہے۔
ایک مصروف ترین پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کے بعد میں ووٹرز کی لمبی قطاروں کی تصاویر بنا رہی تھی کہ میری ملاقات 20 سالہ احسن سے ہوئی جس کی ٹانگ میں فریکچر کے سبب پلاسٹر بندھا ہوا تھا۔
احسن لاٹھی کی مدد سے پولنگ اسٹیشن کی سیڑھیاں اتر کر اب بائیک پر بیٹھ رہا تھا۔ پولیس کا اہلکار اسے سیڑھیاں اترنے میں مدد دیتے ہوئے کہنے لگا، بھائی ہمت ہے تمہاری جو اس حالت میں ووٹ دینے آگئے۔
میں نے احسن سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ ان کا پہلا ووٹ ہے اور وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر بہت خوش ہے۔
اسی پولنگ اسٹیشن پر میری ملاقات 72 سالہ ندیم خان سے ہوئی جو ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔ندیم خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آمریت بھی دیکھی اور جمہوریت بھی لیکن جب بھی عام انتخابات ہوئے ووٹ لازمی دیا۔
’’مجھے بہت لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ کا اس ملک میں کوئی فائدہ نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرا ووٹ امید کا ہے جو آنے والی نسلوں کو فائدہ دے جائے گا۔‘‘
تیس سالہ زوہیب زیدی بھی " بھائی کے حلقے" میں تبدیلی کو ووٹ دینے آئے اور انھوں نے دعوی کیا کہ یہاں پڑنے والا ووٹ سب کو حیران کردے گا۔
پولیس کے کچھ اہلکار مجھے تصاویر بناتا دیکھ کر میرے پاس آئے اور احترام سے کہا کہ موبائل کی اجازت نہیں ہے لیکن ہم کس کس کو بتائیں گے کہ آپ صحافی ہیں۔
معمول کی گپ شپ پر پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ وہ صبح ساڑھے چھ بجے سے پولنگ اسٹیشن پہنچے ہوئے ہیں لیکن بہت سی جگہوں پر پولنگ ایجنٹس نہیں پہنچ پائے۔ تاہم اس بار انھیں یہ نظر آرہا ہے کہ پولنگ اسٹیشنز پر ماضی کی نسبت لڑائی جھگڑا نہیں ہورہا۔ لوگ بہت پرسکون ماحول میں ووٹ دے رہے ہیں۔
میرے بہت سے سوالات کرنے پر ایک نوجوان پولیس اہلکار جس کا تعلق میر پورخاص سے تھا اس نے پوچھا؛ ’’سسٹر مقامی میڈیا کو چھوڑیں آپ بتائیں آپ لوگوں نے تو سروے بھی کروایا ہے کیا رزلٹ آئے گا؟‘‘ میرا جواب تھا کہ میں اس پر کیا بتاؤں جو بھی نتیجہ ہوگا وہ تو شام تک سامنے آ ہی جائے گا۔
میرے جواب پر پولیس اہلکار نے مسکراتے ہوئے کہا؛’’ میرا دل کہتا ہے کہ اس الیکشن میں لوگ پرانے لوگوں کو مسترد کردیں گے کب تک قوم برداشت کرے گی۔‘‘
اس نوجوان پولیس اہلکار کے لہجے اور آواز کی توانائی وہی تھی جو آج پولنگ کے دن میں نوجوان ووٹرکی آمد پر نظر آرہی تھی۔
’آپ تو ہماری آواز پہنچائیں‘
’’آپ وائس آف امریکہ سے ہیں ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں کیوں کہ مقامی میڈیا پر تو عمران خان کا نام لینا بھی منع ہے۔ کم از کم آپ تو ہماری آواز پہنچا سکتی ہیں۔ ہم آج انھیں ووٹ دینے آئے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ محمد طلعہ کے تھے جو کراچی کے حلقہ این اے 243 میں ووٹ ڈالنے کے لیے موجود تھے۔
یہاں موجود لوگوں میں 70 سالہ ایک بزرگ خاتون رخسانہ بی بی بھی تھیں جو ووٹ دینے کے لئے آئیں تو خواتین کی قطار میں لگ گئیں۔ انھیں کھڑا دیکھ کر ایک پولیس اہلکار فورا باہر آیا اور ان کا ہاتھ تھام کر ووٹ کاسٹ کروانے کے لیے اندر لے گیا۔
رخسانہ بی بی جب باہر آئیں تو انھوں نے عملے کی بہت تعریف کی اور بتایا کہ وہ بھی ہر الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرتی ہیں لیکن اس بار ان کا ووٹ قیدی نمبر 804 کے لیے ہے۔
سرخ و سپید رنگت اور سردی سے بچنے کے لیے اونی ٹوپی اور شال اوڑھے یہ خاتون چہرے پر اطمینان لیے جب رخصت ہونے لگیں تو قطار میں لگے بہت سے ووٹرز نے ان سے دعائیں بھی لیں اور ان کی ہمت کو بھی سراہا۔
’دروازہ نہ کھولا تو ۔۔۔‘
اگر دروازہ نہ کھولا گیا تو میں اسے توڑ دوں گا، یہ کہہ کر ایک ووٹر نے سرکاری کالج میں قائم پولنگ اسٹیشن کا آہنی دروازہ زور زور سے ہلانا شروع کردیا یہ مناظر شام پانچ بجنے کے بعد ہمارے کیمرے نے اس وقت محفوظ کیے جب پولنگ کا وقت ختم ہوا اور باہر رہ جانے والے ووٹرز پر پولیس اہلکاروں نے دروازے بند کردیے۔
غصے سے بے حال رحمت خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پانچ روز قبل امریکہ سے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن کے اندر ہیں جب وہ اندر کھڑے تھے تو انھیں پولیس نے موبائل باہرجاکر رکھنے کی تاکید کی جس پر وہ باہر نکلے۔ دور پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں موبائل رکھ کر واپس آئے تب تک ووٹنگ کا وقت ختم ہوگیا اور انھیں داخل ہونے نہیں دیا گیا جس پر پولیس اور ان کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوگئی۔
رحمت اکیلے ایسے ووٹر نہیں تھے بہت سے ووٹر انٹر نیٹ سروس معطل ہونے کے سبب گوگل میپ پر پولنگ اسٹیشن نہ ملنے کے سبب تاخیر سے پہنچے لیکن انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ملی جس پر وہ افسردہ دکھائی دیے۔
پہلا ووٹ اور نیا سوٹ
’’میرا آج پہلا ووٹ ہے اور میں نے تو آج کے دن کے لیے نیا جوڑا سلوایا ہے۔‘‘ اکیس سالہ ماہم عزیز آباد کے پولنگ اسٹیشن میں اپنا پہلا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد جس خوشی سے آکر اپنی والدہ اور بہنوں سے ملیں اسے دیکھ کر آس پاس کھڑے افراد بھی مسکرائے بنا نہ رہ پائے۔
ماہم کی طرح نورین کو بھی ان کے والد پہلا ووٹ ڈلوانے کے لیے لے کر آئے تھے اور مسلسل ہدایات دیتے رہے کہ مہر لگانے کے فورا بعد بیلٹ پیپر فولڈ نہیں کرنا ہے اس سے سیاہی کسی اور امیدوار کے نشان پر لگ سکتی ہے۔
نتائج اور دعوے
پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد اب ڈیوٹی مزید اہم ہوگئی ملک بھر سے آنے والے نتائج جو کہ مقامی میڈیا غیر سرکاری اور غیر حتمی کہہ کر نشر کر رہی تھی اب وہ سب کی توجہ کا مرکز بن چکے تھے۔
انٹر نیٹ کی بندش اب بھی جاری تھی لیکن اپنے سورسز سے بات کرنے کے لیے اب وائی فائی کے زریعے واٹس ایپ کالز کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔
عزیز آباد میں موجود ہمارے ایک ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان تھوڑی دیر میں جشن کا اعلان کردے گی کیوں کہ اس کا دعوی ہے کہ وہ کراچی کی 19 نشستوں پر کامیاب ہوچکی ہے۔
چند لمحوں کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پارٹی کراچی کی ایک دو نشستوں کو چھوڑ کر سب پر برتری حاصل ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کو اتنی زیادہ نشستوں پر سبقت حاصل ہے۔
اسی دوران قومی اسمبلی کی دو سیٹوں کے امیدوار جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے دھاندلی اور نتائج میں تبدیلی کے دعووں کی ویڈیوز آنے لگیں۔
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی جس کے ملک بھر میں آزاد امیدوار کھڑے تھے ان کے آفیشل پیج سے پی ٹی آئی کے عمر ایوب نے دعوی کیا کہ ان کی پارٹی ملک بھرمیں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔
’عوام نے اپنا کام کردیا‘
یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کی نظریں الیکشن کے نتائج پر جمی ہوئی تھیں اور ایسے وقت میں ہر جانب سے دعوی اور الزامات آنا شروع ہوچکے تھے۔
بطور رپورٹر میں نے پارٹی ورکرز کے ان دعووں کو سامنے رکھتے ہوئے عام شہریوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نتائج میں تاخیر سے کیا انھیں بھی بے چینی ہورہی ہے؟
ایسے ہی ایک ووٹر شمیم صدیقی کا کہنا تھا کہ ووٹ دینا صرف اہم کام نہیں ووٹر اپنے ووٹ کا نتیجہ بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ دراصل اپنا ووٹ ایک امیدوار کی جیت کے لئے ڈالتا ہے اب نتائج کا دیر سے آنا تشویشناک ہے۔
اریبہ بتول کے مطابق، عوام نے اپنا کام کردیا اب الیکشن کمیشن اپنا کام کرے ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ان تک نتائج نہیں آرہے؟
ارسلان احمد کا کہنا تھا کہ میں نے تو ووٹ پولیٹیکل انجینئرنگ کے خلاف دیا تھا لگتا ہے مجھ جیسے لاکھوں ووٹرز نے آج وہ کردکھایا ہے کہ ادارے پریشان ہوگئے ہیں کہ اب کیا کریں۔
اسی طرح کےجذبات، احساسات اور شک و شبہات سوشل میڈیا پر بھی نظر آئے جس میں لوگ الیکشن کمیشن کو مخاطب کر کے انھیں نتائج میں تاخیر کی وجوہات جاننا چاہتے تھے۔
’ووٹر کو فرق پڑتا ہے‘
نتائج میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے غیر یقینی اور بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اس میں بھی رات کے اس پہر میمز بنانے والے ایسے ہی متحرک دکھائی دیے جیسے الیکشن کی کوریج کرنے والے رپورٹرز۔
ایک ایسی صورت حال میں جہاں عوام کی نظریں نتائج پر تھیں سوشل میڈیا پر میمز کی بھرمار کسی حد تک لوگوں کی ٹینشن کم کرنے کا سبب بن رہی تھی۔
صبح ساڑھے چار بجے جب میں سونے کے لیے لیٹی تو میری نظروں کے سامنے وہ تمام ووٹرز تھے جن کے پاس ووٹ نہ دینے کے بڑے مضبوط جواز ہوسکتے تھے۔ لیکن وہ پھر بھی پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑے نظر آئے۔
میری سماعت میں ایک تجزیہ کار کے وہ جملے گونج رہے تھے:’’یقینا طاقت کے بل بوتے پر آپ حکمرانی کرسکتے ہیں، نگہبانی بھی کرسکتے ہیں لیکن لوگوں کے دل نہیں جیت سکتے، ان کی رائے تبدیل نہیں کرسکتے۔‘‘
بطور صحافی جو میں نے دیکھا وہ یہی تھا کہ اس الیکشن میں ووٹر اس دباؤ اور طاقت کے سامنے کھڑا نظر آیا جو ہمیشہ سے یہی سوچتا آیا ہے کہ اس ملک میں کچھ بھی کردیا جائے عوام کو فرق نہیں پڑتا ۔ لیکن اس بار ووٹر نے اپنے ووٹ کی طاقت سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسے بہت فرق پڑتا ہے۔