سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ سننے کے بعد روسٹرم پر کھڑے بلاول بھٹو زرداری جذباتی نظر آئے۔ فیصلہ سننے کے بعد آب دیدہ بلاول نے عدالت سے نکلتے ہوئے اپنے ساتھ موجود عملے سے سن گلاسز مانگے اور وہ پہن کر میڈیا سے بات کی۔
ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سپریم کورٹ نے اپنی رائے چار مارچ کو محفوظ کی تھی۔
بدھ کی صبح سپریم کورٹ پہنچے تو معمول سے زیادہ سیکیورٹی اور رش نظر آیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے کارکن موجود نہیں تھے۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے رہنما سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
عدالت کی طرف جاتے ہوئے میڈیا نے بلاول سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کسی سے کوئی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اور سیدھے کمرۂ عدالت نمبر ایک میں پہنچ گئے جو پہلے ہی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
بلاول کے لیے ان کے ساتھیوں نے اگلی رو میں اگرچہ نشست رکھی ہوئی تھی لیکن وہ نشست پر بیٹھنے کے بجائے روسٹرم پر جا کر کھڑے ہو گئے اور فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔
اس دوران سب نظریں انہی کی جانب مرکوز تھیں۔ بلاول کچھ دیر فاروق ایچ نائیک کے ساتھ بات چیت کرتے رہے، اس دوران تمام ججز کمرۂ عدالت میں پہنچے اور خاموشی چھا گئی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی کرسی پر آ کر بیٹھے تو بولے کہ مجھے یہ بتا کر خوشی ہو رہی ہے کہ یہ سب ججز کی متفقہ رائے ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کیس کے حوالے سے کہا کہ ججز بلاتفریق فیصلے کرتے ہیں۔ عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے۔ عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی رائے سناتے ہوئے کہا کہ صدرِ مملکت نے ریفرنس بھیجا جسے بعد کی حکومتوں نے واپس نہیں لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔
اس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالت سے پوچھے گئے پانچ سوالات پڑھ کر سنائے جن کے بعد میں جواب دیے گئے۔
سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ آیاذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال تھا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانب دارانہ نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
پانچویں سوال میں پوچھا گیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
ان سوالات کے جسٹس فائز عیسیٰ نے جواب دیے اور کہا کہ بھٹو ٹرائل میں فیئر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔ فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں اس سوال میں قانونی اصول کو واضح نہیں کیا گیا۔ ایڈوائزری دائرہ اختیار میں بھٹو کیس میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے۔
عدالتی رائے سنائے جانے کے بعد روسٹرم پر کھڑے بلاول بھٹو زرداری نے جو ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے تھے ججز کی طرف دیکھتے ہوئے 'تھینک یو' کہا اور قریب کھڑے رضا ربانی نے ان کے گلے لگ کر مبارک باد دی۔
ان کے قریب کھڑے باقی ساتھی بھی انہیں مبارک باد دینا چاہتے تھے لیکن آب دیدہ بلاول نے کسی سے زیادہ بات نہیں کی اور کمرۂ عدالت کے باہر چل پڑے۔ کمرۂ عدالت کے باہر جئے بھٹو کا صرف ایک نعرہ لگا اور بلاول سپریم کورٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے باہر کی طرف چل پڑے۔
راستے میں انہوں نے اپنے عملے سے دھوپ کا چشمہ لیا اور باہر آ کر مختصر میڈیا ٹاک کی، اس ٹاک کے دوران بھی بلاول جذباتی نظر آئے۔
بلاول نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آج ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے، تفصیلی فیصلے کے بعد اپنے وکلا سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے مانا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں۔
بلاول چند باتیں کرنے کے بعد کوئی سوال لیے بغیر خاموشی سے چل پڑے اور وہاں موجود ایک صحافی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اپنی غلطی درست کرنے میں 45 سال لگے۔ آج جو غلطیاں ہو رہی ہیں ان کی درستگی کے لیے بھی کیا 45 سال انتظار کرنا ہو گا۔ اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا اور سب خاموشی سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔