ایڈیٹر کا نوٹ: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے. طالبان جنگجو افغانستان میں موجودگی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے رپورٹرز افغانستان میں طالبان کے حوالے سے آئیندہ دنوں کے امکانات اور ان کے پچھلے دور حکومت کا احوال بیان کرنے کے لئے اپنی یادداشتوں کو قلم بند کر رہے ہیں۔ زیر نظر تحریر وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کے سربراہ نفیس ٹکر کی ہے، جسے وائس آف امریکہ اردو کے قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔
ستمبر 1996 کے اواخر میں افغانستان میں چار سال کی خانہ جنگی کے بعد طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اور پھر اس وقت کے افغان صدر محمد نجیب اللہ کو تشدد کے بعد قتل کرکے ان کی لاش ٹریفک پوسٹ پر لٹکا دی تھی۔
مقتول صدر کی ششدر کر دینے والی تصاویر نے تمام افغان شہریوں اور دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ اب طالبان کا غلبہ ہے اور وہ افغانستان میں، بقول ان کے، اسلام کا مکمل نفاذ کریں گے۔
اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کی تمام سرکاری عمارتوں پر طالبان کا جھنڈا لہرانے لگا اور ان کے فوجی مخالفین کو شمال میں اپنے مضبوط گڑھ میں پناہ لینا پڑی۔
میں 29 اکتوبر کو کابل پہنچا تھا جو اس جنگ زدہ ملک میں طالبان کے اقتدار کے دوسرے مہینے کا آغاز تھا۔
طالبان نے اخلاقی پولیس تشکیل دے دی تھی اور طالبان کے ادارے، جسے 'امربالمعروف اور نہی عن المنکر' کا نام دیا گیا تھا، کے سکواڈ سے کابل میں لوگ سب سے زیادہ خوفزدہ تھے۔ سکواڈ کے روایتی افغان لباس میں ملبوس مسلح گارڈز نے ایک ماہ کے اندر ہی شہری آبادی کے افغان مرد و خواتین کے لئے وسیع تبدیلیاں نافذ کر دی تھیں۔
مردوں کے لئے ٹوپی اور پگڑی پہننا اور اتنی داڑھی رکھنا لازم کر دیا تھا جس کی لمبائی ایک مٹھی میں آجائے۔ اور خواتین کے لئے پرانی طرز کا ٹوپی والا برقعہ پہننا لازم تھا، جسے عرفِ عام میں شٹل کاک بھی کہا جاتا ہے۔
نماز کے اوقات میں کاروبار بند رکھنے کا حکم تھا۔
خواتین کو یہ مسلح گارڈ سرِ عام ڈنڈوں سے پیٹتے تھے اور بعض اوقات تو وجہ بھی معلوم نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں پتا چلتا تھا کہ ان کے ٹخنے کھلے رہ گئے، وہ بغیر محرم کے باہر نکلیں یا انہیں کسی اجنبی سے بات کرتے دیکھا گیا۔
سکول بند کر دیے گئے تھے، ٹیلیویژن تباہ، کابل کے عجائب خانوں سے قدیم نوادرات غائب اور سرکاری عمارتوں سے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی تھیں۔
موسیقی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور افغان ڈرم اور رباب کی روایتی موسیقی کی جگہ چڑیوں کی آواز اور مقامی موسیقی کی جگہ طالبان کے جہادی ترانے 'شرعی ریڈیو' پر گونجنے لگے تھے جو افغانستان کے قومی ریڈیو اور ٹیلیویژن کا نیا نام تھا۔
جابر وزیر کا تقرر
طالبان کی جانب سے مدرسے کے تعلیم یافتہ انتہا پسند ملا کلام الدین کو نیکی اور بدی کی وزارت کا نائب وزیر بنائے جانے سے لوگوں کے خوف میں اور اضافہ ہو گیا۔
پاکستان کے شہر اکوڑہ خٹک کے مدرسے دارالعلوم حقانی کے گریجویٹ، ملا کلام الدین ایک جابر عہدیدار تھے اور طالبان کی خوف کی مہم ذاتی طور پر چلانے کی شہرت رکھتے تھے۔ اکوڑہ خٹک کا مدرسہ دارلعلوم حقانیہ وہ مدرسہ ہے جہاں سے بیشتر طالبان لیڈروں نے تعلیم حاصل کی تھی۔
وہ قامت میں 6 فٹ سے زیادہ تھے۔ میں ان سے ان کی وزارت کے دفتر میں ملا تو اپنے ماتحتوں کو ہدایات دیتے ہوئے ان کے بیٹھنے کے لئے کرسی نہیں بلکہ ایک صوفہ تھا۔
انہیں صرف ان لوگوں سے نفرت تھی جو خواتین کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت کے لئے صرف دو جگہیں ہیں، ایک گھر اور دوسرا قبر۔
کابل کے اہم مقامات پر طالبان کے سخت گیر نظریات کے نشانات واضح تھے۔ شہر کے کثیرالمنزلہ انٹر کانٹیننٹل ہوٹل کے عملے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملا کلام الدین، ہوٹل کے ایک ہال میں بدھا کا ایک چھوٹا مجسمہ دیکھ کر برہم ہو گئے اور انہوں نے کلہاڑی سے اسے پاش پاش کردیا۔
کابل کے اندرونی حصے میں واقع افغان نیشنل بنک میں طالبان کے قبضے سے پہلے خواتین کی ایک بڑی تعداد ملازم تھی، اور سب سے اوپر کی منزل کو چائلڈ کئیر سنٹر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ طالبان قبضے کے بعد بنک بند ہو چکا تھا ۔ خواتین پر پابندی لگا دی گئی تھی اورچائلڈ کئیر سنٹر میں صرف خالی جھولے اور بچوں کے کھلونے بکھرے پڑے تھے۔
بنک کے سویلین منتظمین کا کہنا تھا کہ اس بنک کو دوبارہ کھولنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔
بہت سے دیگر اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اپنے عملے میں شامل تمام خواتین ورکرز سے محروم ہونا پڑا، کیونکہ طالبان کی شریعت میں عورتوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اس وقت طالبان کے بانی لیڈر ملا محمدعمر، جنوبی قندھار میں اپنے مضبوط گڑھ میں بیٹھ کر، جو تب کابل سے 18 گھنٹے کی مسافت پر تھا، حکومت چلا رہے تھے۔
ان کی انتظامیہ کی ہائی کونسل میں صرف 6 ارکان تھے جن کی قیادت قندھار سے تعلق رکھنے والے ایک سابق لیڈر ملا محمد ربانی کے پاس تھی مگر فیصلوں میں انہیں رائے دینے کی اجازت نہیں تھی۔
طالبان کے وسیع پیغامات اور نشریے
عام لوگوں کے لئے، جو اپنے نئے لیڈروں کی تیزی سے لائی گئی تبدیلیوں کو سمجھنے کی سعی کر رہے تھے، بین الاقوامی نشریاتی اداروں، وائس آف امیریکہ اور بی بی سی کی پشتو نشریات اور طالبان کا 'ریڈیو شریعہ' ہی معلومات کے بڑے ذرائع تھے۔
ریڈیو شریعہ انہیں سکھا رہا تھا کہ وہ خود کو طالبان کے اسلامی نظام میں کیسے ڈھال سکتے ہیں۔ مدرسوں سے تعلیم یافتہ ملا، شام کے مقبول نشریاتی اوقات میں اپنے خطبوں میں انہیں سزاؤں کے بارے میں بتا رہے تھے۔
بعض پیغامات میں لوگوں کو نئی معاشرتی پابندیوں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ ''موسیقی سننے پر خدا کانوں میں گرم سیسہ ڈال دے گا، سڑک کے بائیں جانب چلنا یا گاڑی چلانا اسلام کے خلاف ہے، اور یہ کہ کسی مرد کا کسی عورت یا کسی عورت کا مرد کی جانب دیکھنا آنکھوں کا گناہ ہے''۔
رات کے وقت کابل میں فضا اور بھی پریشان کن معلوم ہوتی تھی۔ ریڈیو شریعہ سے نئی وارننگز نشر ہوتیں اور طالبان جنگجو شام سے علی الصبح تک کرفیو کی پابندی کے لئے اپنے پک اپ ٹرکوں میں سڑکوں پر گشت کرتے۔
رات کے اس گشت سے ان افواہوں نے جنم لیا کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں، یا یہ کہ طالبان لڑائی کے لئے شمال کی جانب بڑھ رہے ہیں، کابل کے بعض مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ طالبان پاکستان سے خفیہ جنگجو لا رہے ہیں؛ جبکہ لوگ اس خیال سے کہ طالبان کے لئے پاکستان کی حمایت افغانوں کو متاثر کر رہی ہے، اسلام آباد سے پہلے ہی برہم تھے۔
اس وقت کے پاکستانی عہدیداروں نے اس خیال کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ، سابق فوجی جنرل نصیر اللہ بابر کو یہ کہنے میں عار نہیں تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کے خالق ہیں۔ اور یہ کریڈٹ وہ اپنی پوری ریٹائرڈ زندگی میں لیتے رہے۔
پاکستان کا مبینہ کردار
5نومبر 1996کو میں نے ایک مغربی صحافی کے ساتھ کابل چھوڑ دیا اور قندھار روانہ ہو گیا۔ اس زمانے میں یہ سفر 480 کلومیٹر طویل اور بہت دشوار تھا۔ گاڑی کے سپیڈومیٹر کی سوئی 30 کلو میٹر فی گھنٹہ سے آگے ہی نہیں بڑھتی تھی۔ راستے میں ریڈیو پر خبر نشر ہوئی کہ پاکستان کے اس وقت کے صدر نے تب کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت بد عنوانی کے الزامات کے تحت بر طرف کردی ہے۔
یہ دوسرا موقع تھا کہ بے نظیر کی حکومت ملک کے صدر کی جانب سے برطرف کی گئی۔
پہلی مدت میں بے نظیر کی حکومت افغانستان کے لئے اپنے غلط فوجی اندازوں کے ساتھ ختم ہوئی۔ 1989 کے اوائل میں ان کی حکومت نے پاکستان کے حامی افغان جنگجوؤں کو افغانستان کا مشرقی شہر جلال آباد، ملک کی سوویت حمایت والی حکومت سے قبضے میں لینے کے لئے کہا۔
آپریشن ناکام رہا اور ان کا منصوبہ فاش ہو گیا جو ان کی حکومت کے لئے سیاسی طور پر نقصان کا باعث بنا اور اس نظریے کو ہوا ملی کہ پاکستان اپنی فوجی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں عسکریت پسندوں کی مدد کرتا ہے۔
1997 میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت نے طالبان حکومت کو سب سے پہلے با ضابطہ تسلیم کرتے ہوئے، اس نظریے کو مزید تقویت بخشی۔
پاکستان کی جانب سے برسوں اس بات سے انکار کے باوجود، 24سال بعد بھی افغانستان کے بیشتر عوام سمجھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کا ایک بازو ہیں۔