پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کے علاوہ ایک اور معاملے نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر وزیرِ اعظم کو مزید اختیارات دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترامیم پر غور کر رہی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے انگریزی روزنامہ 'ڈان' میں بدھ کو ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق آرمی ایکٹ 1952 میں مجوزہ ترامیم کے بعد وزیرِ اعظم کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ فوج کے سینئر افسران کی مدتِ ملازمت میں صرف ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے توسیع کر سکیں گے۔
خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 176 میں ترامیم کر کے فوجی افسران 'ری اپاؤنٹمنٹ' کے بجائے 'ریٹینشن' جب کہ 'ریلیز' کے بجائے 'رییزگینشن' کے الفاظ شامل کرنے کی تجویز ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم کے معاملے کو قیاس آرائیاں قرار دیا تھا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کام ہو رہا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم کا تعلق موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع اور 27 نومبر کو ریٹائر ہونے والے سینئر موسٹ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر سے ہے ۔ لہذٰا حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ معاونت سے کوئی مختلف قدم اٹھانے جارہی ہے۔
اس بارے میں وزارتِ قانون وانصاف کی طرف سے واضح طور پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اب تک اسے پارلیمنٹ میں لانے کے حوالے سے حکومتی حکمتِ عملی سامنے آئی ہے۔
قانون کے مطابق اس ایکٹ کو پاس کروانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری لازمی ہے اور یہ کام مشترکہ اجلاس میں بھی کیا جاسکتا ہے جس کے بعد اسے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا جو 10 روز کے اندر پارلیمان کو مزید غور کے لیے واپس بھی بھجوا سکتے ہیں۔
اس ترمیم سے کس کو فائدہ ہو سکتا ہے؟
افواجِ پاکستان کے قانونی معاملات سے متعلق شعبے 'جیگ برانچ' میں تعینات رہنے والے کرنل (ر) انعام الرحیم کہتے ہیں کہ اُنہیں لگتا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے حکومت موجودہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے بعد اُنہیں مزید وقت دینا چاہ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ توسیع یا 'ایکسٹینشن' کا لفظ پاکستان میں اب کافی بدنام ہو گیا ہے اور عوامی حلقوں میں اس پر مزاحمت بھی سامنے آ رہی ہے۔ لہذٰا اب 'ریٹینشن' کا لفظ متعارف کرایا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'ریلیز' کی جگہ 'ریزیگنیشن' کا لفظ شامل ہونے سے فوجی افسر اپنی مرضی سے مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد خدمات جاری رکھنے کی مدت میں ملازمت چھوڑ سکے گا یا پھر وزیرِ اعظم جب چاہیں گے کہ اُن کی خدمات واپس لے لیں گے۔ لہذٰا یہ ریٹائرمنٹ نہیں بلکہ استعفیٰ ہو گا۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ موجودہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے دو روز قبل ہونے کے حوالے سے کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ ان کا آرمی ایکٹ کی اس شق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کہتے ہیں کہ اگر حکومت چاہے تو آج ہی بطور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام کا اعلان کر سکتی ہے۔ لہذٰا جس دن وزیرِ اعظم یہ اعلان کریں گے اسی دن سے ہی اُن کی مدتِ ملازمت کا آغاز ہو جائے گا اور پھر وہ 27 نومبر کو ریٹائر نہیں ہوں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو رہے ہیں جب کہ فوج کے سینئر ترین افسر لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ حکومت اگر 27 نومبر سے ایک یا دو دن قبل جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کا اعلان کر دے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
لیکن دفاعی اُمور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ حامد میر کی بات سے اتفاق نہیں کرتیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ مجوزہ ترمیم جنرل عاصم منیر کو ہی آرمی چیف بنوانے کے لیے لائی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جنرل عاصم منیر کو ہی آرمی چیف بنانا چاہتی ہے۔ لیکن ان کی دو روز قبل مدتِ ملازمت ختم ہونے سے اس عمل میں حکومت کو پیچیدگی کا سامنا ہے۔ لہذٰا اسے دُور کرنے کے لیے یہ ترمیم لائی جا رہی ہے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ اگر جنرل عاصم منیر کو 27 نومبر سے پہلے ہی آرمی چیف بنانے کا اعلان ہو جاتا ہے تو پھر بھی اُنہیں کمان 29 نومبر کو ہی سنبھالنا ہو گی۔ لہذٰا اُن کی تعیناتی کے اعلان اور کمان سنبھالنے کے درمیانی عرصے میں قانونی پیچیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اُن کے بقول اسی لیے حکومت اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم لانا چاہتی ہے۔
'مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک لابی جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع چاہتی ہے'
حامد میر کہتے ہیں کہ یہ مسودہ 2019 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی جانے والی توسیع کے وقت سامنے آیا تھا۔ اُن کے بقول تاثر یہ بھی ہے کہ یہ ترمیم جنرل باجوہ کو مزید توسیع دینے کے لیے لائی جا رہی ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک لابی موجود ہے جو کوشش کر رہی ہے کہ جنرل باجوہ کو مزید توسیع دی جائے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ فوج کا ترجمان ادارہ آئی ایس پی آر واضح کر چکا ہے کہ جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ لیکن ایک لابی چاہتی ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ عمران خان بھی جنرل باجوہ کو نئے انتخابات تک کام جاری رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں جب کہ صدر عارف علوی بھی اس کوشش میں ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ اس وقت کئی عالمی طاقتوں کے حوالے سے بھی باتیں پھیلائی جارہی ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک چاہتے ہیں کہ جنرل باجوہ اپنا کام جاری رکھیں۔
لیکن اُن کے بقول " انکی ان ممالک کے سفارت کاروں سے بات ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔'