متعدد خبر رساں اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ سنہ 2015کے تاریخی پیرس موسمیاتی معاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کر لیں گے، جسے اوباما دور کی پالیسی میں کی جانے والی ایک اہم تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں اُن کے ری پبلیکن حامی خوش ہوں گے، جب کہ امریکہ کے اتحادی برہم ہوں گے۔
تاہم، ٹرمپ نے بدھ کے روز یہ عندیہ دیا کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں۔ ٹوئیٹ جاری کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ وہ اس معاہدے کے بارے میں ’’آئندہ چند دِنوں کے اندر‘‘ اپنے فیصلے کا اعلان کریں گے۔
دریں اثنا، ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ نے وائٹ ہاؤس کے ایک اہل کار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹرمپ ’’بچ بچاؤ کی زبان‘‘ استعمال کرتے ہوئے، یہ کہہ سکتے ہیں کہ علیحدہ ہونے کے باوجود یہ امکان باقی رہے گا کہ یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے۔
اس خبر سے کچھ ہی روز قبل، 22 ری پبلیکن سینیٹروں نے ٹرمپ کو خط ارسال کیا ہے جس میں اُن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’پیرس سمجھوتے سے واضح طور پر تعلق ختم کردیں‘‘۔
خط میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ’’اس میں شامل رہنے سے، امریکہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ باقی رہے گا‘‘ جس سے اوباما دور کے ضابطوں سے جان چھڑانے میں ٹرمپ کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، جیسا کہ ’’شفاف توانائی کا منصوبہ‘‘۔
بین الاقوامی ردِ عمل
معاہدے سے الگ ہونے کی خبروں سے یورپی اتحادیوں نے پریشان کُن ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے سات اہم مغربی جمہوریتوں کے گروپ کےاجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیے میں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی تھی کہ امریکہ کے اعتراضات کے نتیجے میں معاہدےکے بارے میں عالمی سطح پر ہونے والے اتفاقِ رائے میں خلل پڑ گیا ہے، جس کی دنیا کے 195 ملکوں نے توثیق کی تھی۔