'جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ‘ کس مشن کے لیے خلا میں بھیجی گئی ہے؟

'جیمز ویب اسپیس' ٹیلی اسکوپ بغیر کسی فنی خرابی کے خلا کی جانب روانہ ہوئی جب کہ اس ساری کارروائی کو ناسا کی ویب کاسٹ پر براہِ راست نشر کیا گیا۔

لگ بھگ 10 ارب ڈالر لاگت سے تیار ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی خلائی دوربین تاریخی سفر پر خلا کی جانب روانہ ہو گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ٹیلی اسکوپ کائنات سے متعلق مزید رازوں سے پردہ اُٹھانے سمیت کہکشاؤں اور ستاروں کے وجود میں آنے سے متعلق مزید معلومات فراہم کرے گی۔

'جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ' نامی اس دوربین کو ہفتے کو جنوبی امریکہ کے شمال مشرقی ساحل پر واقع فرنچ گیانا سے خلا میں چھوڑا گیا۔

ناسا کے ماہرین پراُمید ہیں کہ یہ جدید دُوربین آئندہ 10 برس کے دوران خلا میں سائنسی مشاہدات کے لیے استعمال ہو سکے گی۔

مذکورہ دُوربین کو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بج کر 20 منٹ پر فرنچ گیانا میں یورپین اسپیس ایجنسی کی لانچنگ بیس سے آریانا فائیو نامی راکٹ کی مدد سے خلا میں بھیجا گیا۔

'جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ' بغیر کسی فنی خرابی کے خلا کی جانب روانہ ہوئی جب کہ اس ساری کارروائی کو ناسا کی ویب کاسٹ پر براہِ راست نشر کیا گیا۔

خلا میں 27 منٹ کے سفر کے بعد 14 ہزار پونڈ وزنی اس ٹیلی اسکوپ کو فرانسیسی ساختہ راکٹ کے بالائی حصے سے الگ کر دیا گیا جو اگلے 13 روز کے دوران خلا میں سفر جاری رکھے گی اور اس کا حجم ایک ٹینس کورٹ کے برابر رہ جائے گا۔

سائنس دان پراُمید ہیں کہ یہ ٹیلی اسکوپ خلا میں اُن کہکشاؤں اور ستاروں کا بھی کھوج لگائے گی جو اربوں برس قبل وجود میں آئے تھے۔

دو ہفتے کے سفر کے بعد یہ ٹیلی اسکوپ شمسی مدار میں داخل ہو جائے گی جو زمین سے لگ بھگ 10 لاکھ میل دُور اور زمین کے چاند سے فاصلے سے بھی چار گنا زیادہ ہے۔ لیکن زمین اور 'جیمز ویب اسپیس' سورج کے گرد چکر لگانے کے باوجود ایک دوسرے کے سامنے رہیں گے۔

خیال رہے کہ تیس برس قبل خلا میں بھیجی گئی دُوربین 'ہبل' زمین سے 340 میل کی دُوری پر چکر لگا رہی ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں ناسا کی سربراہی کرنے والے جیمز ویب کے نام سے منسوب اس ٹیلی اسکوپ کو 'ہبل' کے مقابلے میں 100 گنا حساس اور مؤثر قرار دیا جا رہا ہے جو کائنات کو مزید سمجھنے میں معاون ثابت ہو گی۔

ماہرین پراُمید ہیں کہ 'جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ' خلا میں گیس اور دُھول کے بادلوں میں بھی باآسانی سفر کر کے ستاروں کے وجود میں آنے کے عرصے کا تعین کر سکے گی۔

کائنات میں قدیم ترین ستاروں اور کہکشاؤں کی تشکیل کا جائزہ لینے کے علاوہ ماہرینِ فلکیات انتہائی بڑے بلیک ہولز کا مطالعہ کرنے کے بھی خواہش مند ہیں۔

ماہرین پراُمید ہیں کہ 'جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ' کے آلات کئی نئے سیاروں میں زندگی کے آثار کا کھوج لگانے جب کہ مریخ اور زخل کی برفیلی سطح کے معائنے میں بھی مددگار ہوں گے۔

البتہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 'جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ' کو پہلی تصویر بھیجنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔