پاکستان میں نومولود لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دینے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین اعداد و شمار نہایت حیران کن ہیں، جن کے مطابق، پچھلے سال 345 نومولود بچوں کو قتل کردیا گیا، جن میں سے 90 فیصد بچیاں تھیں۔
گزشتہ سال سب سے زیادہ 180 نومولود لڑکیوں کی لاشیں کراچی سے ملیں جبکہ رواں سال کے ابتدائی چار ماہ میں71بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔ جنوری میں 15، فروری میں 22، مارچ میں 18 اور اپریل 16 لاشیں۔
ادھر ایک اور فلاحی تنظیم، ’چھیپا‘ کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ اسے رواں سال چار ماہ کی مدت میں اب تک 23 نومولود بچوں کی لاشیں ملی ہیں، جبکہ 2017 میں ملنے والی نومولود بچوں کی لاشوں کی کل تعداد 70 تھی۔
یہ اعداد و شمار مکمل نہیں کیوں کہ یہ فلاحی تنظیمیں صرف ان شہروں کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھتی ہیں جہاں ان کی سروس موجود ہے۔ لیکن جن شہروں میں یہ ادارے خدمات انجام نہیں دیتے وہاں کے اعداد و شمار بھی یکجا کئے جائیں تو یہ نہایت ہولناک ہوسکتے ہیں۔
قتل کی وجوہات کیا ہیں؟
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نومولود بچوں کا قتل اور انہیں لاوارث چھوڑ دینا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 328 اور329کے تحت جرم ہیں۔ ان دفعات کی خلاف ورزی پر قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن جرم چھپانے کے لئے اس قانون کو دیکھا ان دیکھا کردیا جاتا ہے۔
کراچی کے فلاحی ادارے ’ایدھی فاؤنڈیشن‘ کے سرپرست فیصل ایدھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان واقعات سے جڑے اسباب کی جانب واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ان اعداد و شمار کو باقاعدہ تصدیق کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہماری بار بار کی اس اپیل پر لوگ اب تک پوری طرح عمل نہیں کر سکے ہیں کہ بے طلب، ناپسندیدہ یا ناجائز بچوں کو ہرگز قتل نہ کریں، انہیں ایدھی ہوم کے جگہ جگہ لگے جھولوں میں رازداری سے چھوڑ جائیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم ان کی پرورش کریں گے۔ اگر واقعی لوگ اس پر پوری طرح عمل کرتے تو قتل جیسے بھیانک جرم اور گناہ عظیم کے مرتکب بھی نہ ہوتے اور آج یہ تعداد بھی اتنی نہ ہوتی۔‘‘
فیصل ایدھی نے مزید کہا کہ ’’لوگ لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ پہلے پرورش پر خرچ کرو پھر شادی پر اور اس کے بعد جہیز پر۔ جبکہ لڑکوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ کما کر لائیں گے۔ دولت کی ریل پیل ہوگی۔ زمانے بدل گئے۔ لیکن، یہ سوچ نہیں بدلی۔ لگتا ہے ہم آج بھی ’دور جہالت‘ میں کھڑے ہیں۔‘‘
ایدھی فاؤنڈیشن کے سینئر منیجر انور کاظمی نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ’’تمام لاشیں عموماً شہر کے مختلف علاقوں میں قائم کچرا کنڈیوں سے ملتی ہیں۔ ابھی دو دن پہلے ہی کی بات ہے نیلم کالونی کے کچرے کے ڈھیر سے ہمیں ایک بچی کی سر کٹی لاش ملی جسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یہ بربریت کی انتہا ہے‘‘۔
لڑکیوں سے اس قدر نفرت کرنے کی وجہ سے متعلق انور کاظمی کا کہنا ہے کہ ’’اگر ایک گھر میں پہلے سے ہی پانچ یا چھ لڑکیاں ہوں تو لوگ تعش میں آجاتے ہیں اور مزید لڑکیاں انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ ایسے میں بربریت گھر کا راستہ دیکھ لیتی ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’’بچیاں اگر کسی ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہوں تو بھی ان سے نجات کے لئے یہی گھناؤنی راہ نکال لی جاتی ہے۔ ہمیں تو کچھ پتہ نہیں ہوتا لوگ فون پر اطلاع دیتے ہیں کہ فلاں علاقے کے فلاں مقام پر واقع کچرا کنڈی پر ایک نومولود کی لاش پڑی ہے۔ ہم اسے اٹھا لاتے ہیں۔ پولیس کو اطلاع دیتے ہیں اسے بلاتے ہیں۔ لیکن پولیس بھی ان واقعات میں زیادہ پڑنے سے کتراتی ہے۔‘‘
انور کاظمی کے مطابق، ’’زیادہ تر واقعات غریب علاقوں میں پیش آتے ہیں۔ وہاں لڑکیوں کے ساتھ شادی سے پہلے ’غلطی‘ ہوجائے تو پہلے اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب معاملہ گھر والوں کے سامنے آتا ہے تو خاموشی اور رازداری سے بچے کو جنم تو دے دیا جاتا ہے۔ لیکن، بعد میں اسے قتل کر کے کچرا کنڈی پر پھینک دیا جاتا ہے۔‘‘
اس حوالے سے ’چھیپا ویلفیئر آرگنائزیشن‘ کے ترجمان شاہد محمود کا کہنا ہے کہ ’’ایک بچے کی تدفین پر زیادہ سے زیادہ دوہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن، حیرت ہے کہ غربت کے سبب لوگ یہ اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔ اس ضمن میں، ’چھیپا‘ پولیس اور اسپتال کے تمام ضابطے مکمل کرتا اور اس کے بعد بچوں کو سپرد خاک کرتا ہے۔
اے آئی جی آفس کراچی کے ایک پولیس افسر کےحوالے سے ایک رپورٹ میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بچوں کے قتل کے واقعات کی دو اہم وجوہات ’غربت اور جہالت‘ ہیں۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ لیکن، عموماً لوگ اس طرح کے واقعات پولیس سے چھپا لیتے ہیں، حتیٰ کہ گزشتہ سال بچوں کے قتل کا صرف ایک مقدمہ درج ہوا۔ پولیس عوامی شکایات پر ہی تحقیق کرتی ہے۔ لہذا، لوگوں کو چاہئے کہ وہ پولیس کے پاس شکایات درج ضرور کرائیں۔