حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ بھارت میں بیٹے کی پیدائش کی خواہش ایک غلط سماجی رویے کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔۔ وہ یہ کہ جنس کے تعین کے بعد، روزانہ '2000' بچیاں پیدا ہونے سے پہلے اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کردی جاتی ہیں یا پھر پیدا ہونے پر قتل کی جاتی ہیں۔
اس بات کا انکشاف بھارتی وزیر برائے ترقی نسواں مانیکہ گاندھی نے ایک بھارتی ٹیلیوژن چینل، ’این ڈی ٹی وی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’بھارت میں بیٹے کی پیدائش کی خواہش پر والدین روزانہ کی بنیاد پر 2000 بچیوں کو پیدائش کے بعد یا پھر پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردیتے ہیں‘۔
بقول وزیر، بھارت میں ’اسقاط حمل اور پچیوں کے قتل کی شرح بہت زیادہ ہے‘۔
ادھر مانکیہ گاندھی نے عالمی خبر رساں ادارے، 'رائٹرز' کو بتایا کہ جب کہ محض جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل ایک بے رحمانہ فعل ہے، لیکن پیدائش کے بعد سنگ دلی کے رویے کو اپناتے ہوئے، نومولود کے منہ پر تکیہ رکھ کر اُسے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے بتایا کہ بھارت میں پیدائش سے قبل جنس کے تعین کیلئے ٹیسٹ پر پابندی ہے۔
ایک برطانوی طبی رسالے کی جانب سے 2011ء میں مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، گذشتہ 30 برسوں میں ایک کروڑ سے زائد بچیوں کو اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں 1000 لڑکوں کے مقابلے میں 918 لڑکیاں ہیں، جس شرح کے فرق میں، اس بے رحمانہ سماجی رویے کے نتیجے میں، اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
دوسرے کئی ملکوں کی طرح، بھارت میں بھی مردوں کو ترجیح دینے کا رواج عام ہے، جہاں بیٹیوں سے زیادہ بیٹے کو خاندان کا سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے سماج میں بیٹے خاندان بھر کی کفالت، خاندان کا نام آگے بڑھانے اور والدین کی ذمہ داری نبھانے کیلئے بہتر سمجھےجاتے ہیں؛ جب کہ بیٹی کے معاملے میں ذمہ داری ہی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔
بھارتی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ‘ کے نام سے ایک مہم جاری ہے، جس سے یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اسکے مثبت نتائج نکلیں گے۔
بقول اُن کے، اس مہم کے بعد، بچیوں کے اسقاط حمل کے واقعات میں کمی آئی ہے اور یتیم خانوں میں ڈالی گئی بچیوں کی تعداد بڑھی ہے۔ مہم کے ذریعےاب بھارت میں لوگوں کے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب لوگ بچیوں کے قتل کےبجائے انھیں یتیم خانوں میں پڑے پالنوں میں ڈال دیتے ہیں جو ایک مثبت تبدیلی کےطور پر سامنےآ رہی ہے۔