غیرت کے نام پر دو خواتین کا قتل، سندھ میں کاروکاری کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

  • پاکستان کے صوبہ سندھ میں کاروکاری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انسانی حقوق کے کارکن تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
  • جمعرات کو سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے علاقے محراب پور میں عابد نامی ملزم نے اپنی 16 سالہ بہن کو موبائل فون رکھنے اور کسی کے ساتھ تعلقات کے الزام میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  • رپورٹس کے مطابق ستمبر کے 26 دنوں میں صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں غیرت کے نام یا کاروکاری کے الزام میں سب سے زیادہ پانچ افراد کو قتل کیا گیا۔
  • سندھ کے مختلف علاقوں میں کچھ قبرستانوں کو کاریوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک ہی روز دو خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے بعد ایک بار پھر کاروکاری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

جمعرات کو سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کے علاقے محراب پور میں عابد نامی ملزم نے اپنی 16 سالہ بہن کو موبائل فون رکھنے اور کسی کے ساتھ تعلقات کے الزام میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ملزم نے اس دوران اپنی 60 سالہ چچی کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

محراب پور پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔

مقامی سندھی میڈیا میں رواں ماہ ستمبر کے صرف 27 دنوں کے دوران سندھ میں کاروکاری کے الزام میں کم سے کم 12 قتل کے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں نو خواتین اور تین مرد شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ستمبر کے 26 دنوں میں صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں غیرت کے نام یا کاروکاری کے الزام میں سب سے زیادہ پانچ افراد کو قتل کیا گیا۔ ان میں کاروکاری کے الزام میں دو قبیلوں میں کچھ ماہ سے چلنے والے تنازع پر 22 ستمبر کو قتل کیے گئے تین مرد بھی شامل ہیں۔

'کاریوں کا قبرستان'

ضلع گھوٹکی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن اور سینئر صحافی الہورایو بوزدار کہتے ہیں کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں کچھ قبرستانوں کو کاریوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سندھ میں کاروکاری کے الزام میں قتل ہونے والوں کو اکثر بغیر کفن کے دفن کیا جاتا ہے اور رشتہ داروں اور دوستوں سے تعزیت بھی نہیں لی جاتی اور ورثا میت کو کاندھا بھی نہیں دیتے۔

الہورایو بوزدار کہتے ہیں کہ کندھ کوٹ میں پیش آنے والے ایک واقعے میں جب سعودیہ پلٹ نوجوان اپنے والد کی قبر پر گیا تو غلطی سے اس نے کاری کی گئی ایک عورت کی قبر کے سامنے فاتحہ خوانی کر دی۔ اس پاداش میں اس عورت کے ورثا نے اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔

سندھ میں کاروکاری پر کام کرنے والی تنظیم 'سہائی ستھ' کی سربراہ عائشہ دھاریجو کہتی ہیں کہ سندھ میں کاروکاری کے 30 فی صد سے زائد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سندھ میں پہلے کاروکاری کے الزام میں کلہاڑی کے وار کر کے قتل کیے جاتے تھے یا گولیاں ماری جاتی تھیں۔ مگر اب دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سزا سے بچنے کے لیے قتل کو خودکشی یا کوئی اور رنگ دیا جاتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کاروکاری کو زمین کے تنازع اور دیگر معاملات میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ کاروکاری کا الزام لگانے کے بعد لڑکے سے پیسے وصول کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

عائشہ دھاریجو کہتی ہیں کہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

'کاروکاری کو کاروبار بنا لیا گیا ہے'

مصنف اور سینئر صحافی نثار کھوکھر کہتے ہیں کہ کاروکاری کے الزام میں زیادہ تر خواتین کو قتل کیا جاتا ہے اور لڑکے سے رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے اور جو رقم دے اسے معافی مل جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کاروکاری کو ایک طرح سے کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ صوبے میں قبائلی نظام ہے اور عدالتی نظام میں خامیاں ہیں۔ اب یہ واقعات دیہی علاقوں کے علاوہ شہروں میں بھی ہو رہے ہیں اور مڈل کلاس گھرانوں میں بھی ہونے لگے ہیں۔

نثار کوکھر نے بتایا کہ جان جیکب جس کے نام ضلع جیکب آباد کا نام ہے انہوں نے کاروکاری کو کم کر کے دکھایا تھا جس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔

الہورایو بوزدار کا کہنا تھا کہ بٹوارے سے قبل انگریزوں کے دور میں مرکزی حکومت کی جانب سے سندھ کے کمشنروں کو خط لکھا گیا کے جس علاقے سے کاروکاری کے الزام میں قتل کیا جائے قتل کرنے والے لوگوں کے سردار پر بھی قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔

الہورایو بوزدار کے مطابق تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس فیصلے کے بعد سندھ میں کاروکاری کے واقعات کم ہوئے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تعلیم عام کرنے اور لوگوں کو آگاہی دے کر ہی ایسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جاری ہونے والی رپورٹس کے مطابق کاروکاری کے الزام میں 620 قتل ہوئے جس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔

سندھ حکومت صوبے میں کاروکاری کے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر کارروائیوں کے دعوے کرتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی۔