میانمار کی فوجی جنتا کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ سے جلد از جلد ملک سے فرار ہونے والی روہنگیا اقلیتی افراد کا خیرمقدم شروع کر دیں گے ۔جب کہ روہنگیا پناہ گزینوں نے بدھ کو کہا کہ انہیں شک ہے کہ میانمار حقیقت میں انہیں وطن واپسی کی پیشکش کر رہا ہے۔
پانچ سال پیشتر ایک ظالمانہ فوجی کریک ڈاؤن میں بڑی تعداد میں میانمار کی روہنگیا اقلیت کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
میانمار کی حکومت کے 17 عہدیداروں کے ایک وفد نے ممکنہ امیدواروں سے میانمار واپسی کے لیے انٹرویو کرنے کی غرض سے اس ہفتے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔
چین کی ثالثی سے اور جزوی طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے سہولت فراہم کرنے کے بعد اس دورے کا اہتمام کیا گیا اور دونوں ممالک کے درمیان وطن واپسی کے لیے جلد بازی میں معاہدہ ہوا جو برسوں سے التواء کا شکار تھا ۔جس کے متعلق یہ خدشات پائے جاتے تھے کے میانمار واپسی پر مہاجرین محفوظ نہیں رہیں گے۔
لیکن وفد کو انٹرویو دینے والے روہنگیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ میانمار میں ان کی شہریت کے حق کو تسلیم کرنے یا سلامتی کے بارے میں ان کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
ایک 40 سالہ روہنگیا خاتون شمس النہار نے اے ایف پی کو بتایا، کہ وہ وہاں ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کرتے تھے۔جب میں نے پوچھا کہ کیا ہم وہاں عام زندگی گزار سکیں گے، تو انہوں نے مجھے خاموش کرادیا۔
وہ نہیں چاہتے تھےکہ ہم اور سوالات کریں ۔ شمس النہار کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہمیں میانمار وااپس لے کر جائیں گے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو وہ ہمیں کوئی حقوق نہیں دیں گے۔
میانمار کا وفد ان وسیع و عریض کیمپوں میں ، جہاں تقریباً دس لاکھ روہنگیا آباد ہیں ، ایک ہفتہ گزارنے کے بعد بدھ کو روانہ ہوگیا۔
جنتا کے ترجمان زامن تون نے ان کی روانگی کے بعد اے ایف پی کو بتایا کہ میانمار ممکنہ طور پر اپریل کے وسط تک ان لوگوں کی وطن واپسی کا عمل شروع کر دے گا اور شروع میں تقریباً 1000 پناہ گزینوں کا خیر مقدم کیا جائیگا۔
میانمار کے نمائندے ،باضابطہ طور پر پناہ گزینوں کی ممکنہ واپسی اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے موجود تھے، کہ آیا وہ 2017 کے کریک ڈاؤن سے پہلے میانمار میں اپنی رہائش ثابت کر سکتے ہیں۔
لیکن انٹرویو دینے والے ایک اور مہاجر نے کہا کہ اس کی رہائش کو ثابت کرنے والی دستاویزات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔
50 سالہ سید حسین نے اے ایف پی کو بتایا، میں نے تمام دستاویزات فراہم کیں لیکن انہوں نے اس طرح کا برتاؤ کیا جیسے ہماری دستاویزات اصلی نہیں ہیں۔
ایک ممتاز روہنگیا گروپ، اراکان روہنگیا نیشنل الائنس، نے گزشتہ ہفتے میانمار پر الزام لگایا کہ وہ عدالت کی سرزنش سے بچنے کے لیے پناہ گزینوں کی رسمی واپسی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے اتوار کو ایک بار پھر کہا کہ میانمار کے حالات روہنگیا پناہ گزینوں کی ’پائیدار واپسی‘ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
سول سوسائٹی کے بعض گروپوں نے پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے ،گزشتہ ہفتے میانمار کے اہل کاروں کو بنگلہ دیش پہنچانے میں سہولت فراہم کرنے پر اقوام متحدہ کی ایجنسی پر تنقید کی ہے۔
وطن واپسی کے منصوبے پر سب سے پہلے 2017 کے کریک ڈاؤن کے فوراً بعد اتفاق کیا گیا تھا لیکن کسی اہم پیش رفت کرنے میں ناکامی رہی۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا تھا کہ میانمار کو پناہ گزینوں کی واپسی میں سہولت فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے اداروں کا کہنا ہے کہ اگر روہنگیا واپس چلے گئے تو وہ محفوظ نہیں رہیں گے۔
بنگلہ دیش کے پناہ گزینوں کے کمشنر میزان الرحمان نے کہا کہ ان کے ملک کو امید ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی جلد شروع ہو جائے گی، اور ان کی واپسی کے صحیح وقت کے بارے میں مزید وضاحت اگلے ہفتے تک ہو جائیگی۔
رحمان نے اے ایف پی کو بتایا، ہمارے پاس ان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ لیکن یہ سارا عمل کافی پیچیدہ ہے۔
چین دونوں ملکوں کے درمیان ان روہنگیا کی دوبارہ وطن واپسی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ثالثی کر رہا ہے اور ڈھاکہ میں بیجنگ کے سفیر یاؤ وین نے بھی گزشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کی وطن واپسی بہت جلدشروع ہو جائے گی۔
میانمار کے سرکاری میڈیا نے وفد کے بنگلہ دیش جانے کی خبر ابھی تک نہیں دی ہے۔
خبر کا کچھ حصہ اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔