پاکستان کے صوبۂ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قوم پرست جماعت 'جئے سندھ قومی محاذ' (جسقم) کے کارکنوں کے خلاف اتوار کو ریاست مخالف ریلی نکالنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ بغاوت، نقصِ امن اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ سرکار کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ریلی میں پاکستان مخالف اور صوبۂ سندھ کو ملک سے الگ کرنے کے نعرے بھی لگائے گئے۔
ایف آئی آر میں جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین صنعان قریشی، وائس چیئرمین الٰہی بخش اور ملیر کے ضلعی صدر ضمیر حاجانو سمیت مظاہرے میں شریک دو ہزار سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی ار کے متن کے مطابق، چیئرمین جسقم اور دیگر عہدے داران نے ریلی کے شرکا کو اعلٰی سرکاری حکام پر حملے کے لیے اکسایا۔ لیکن اب تک اس کیس میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق، ریلی میں شریک افراد نے پاکستان توڑنے اور ’سندھو دیش‘ بنانے کے نعرے بھی لگائے۔ مظاہرین پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے کسی سازش کے تحت یہ نعرے لگوائے جس سے عوام میں شدید غم و غصہ اور اشتعال پیدا ہوا جب کہ پاکستان اور فوج کے خلاف نعرے لگانے کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔
ایف آئی آر کے اندراج پر جسقم کا مؤقف
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جسقم کے رہنما صنعان قریشی نے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ان کا مارچ پُرامن تھا جس کا مقصد سندھ کی وحدت کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس مارچ کے ذریعے سندھ کو توڑنے والوں کو پیغام دیا گیا۔
صنعان قریشی کے مطابق، ریلی کا مقصد وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے کراچی سے متعلق بیان پر احتجاج اور مزید ڈیمز بنانے کی مخالفت کرنا تھا۔
صنعان قریشی نے بتایا کہ شرکا نے کرتارپور کی طرز پر سندھ میں بھی ایک راہداری کھولنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ بھارت میں رہنے والے ہندو سندھ اور بلوچستان میں واقع اپنے مذہبی مقامات پر آسکیں۔
صنعان قریشی نے ریلی کے دوران پاکستان مخالف نعرے لگوانے کی بھی تردید کی ہے۔
سندھ کی قوم پرست جماعتوں کا ملکی سیاست میں کردار
قیامِ پاکستان کے دوران اور بعد میں بھی سندھ کی قوم پرست جماعتوں کا خطے کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔ تحریکِ پاکستان میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جی ایم سید کا بھی قوم پرست سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔
جی ایم سید نے برّصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن قائم کرنے کے لیے ایک قرارداد بھی منظور کرائی تھی۔
SEE ALSO: جی ایم سید کا 110واں یومِ پیدائش منایا گیاتجزیہ کاروں کے مطابق، بعد میں حالات نے جی ایم سید کو اتنا مجبور کیا کہ سب سے پہلے انہوں نے ہی سندھو دیش کا نعرہ لگایا۔
سندھ میں قوم پرستی کی سیاست کیا اور کن مسائل پر ہے؟
ممتاز صحافی امداد سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ کی سیاست میں قوم پرستوں کا عمل دخل آج بھی موجود ہے۔ سندھ کا ایک بڑا طبقہ جو کہ پڑھا لکھا بھی ہے، قوم پرست خیالات اور نظریات کا حامی ہے اور ان کی عوامی حمایت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں غربت، کرپشن، بے روزگاری اور خراب طرزِ حکمرانی کے باعث روشن خیال طبقے کا بڑا حصّہ قوم پرست جماعتوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔
صحافی امداد سومرو کے مطابق، سندھ میں دو قسم کے قوم پرست گروہ ہیں۔ ان میں سے سے ایک 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں منظور ہونے والی قراردادِ لاہور اور آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بات کرتا ہے۔
SEE ALSO: سندھ کی تقسیم کا کوئی فارمولا منظور نہیں: قادر مگسیان حقوق میں سب سے اہم 1991 کے معاہدے کے تحت سندھ کو پانی کی فراہمی، سرکاری ملازمتوں میں صوبائی کوٹے پر عملدرآمد اور تیل و گیس کی رائلٹی دلانا شامل ہیں۔
یہ قوم پرستوں کی وہ جماعتیں ہیں جو انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں لیکن اب تک یہ جماعتیں الیکشن میں پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
امداد سومرو کے بقول، قوم پرست جماعتوں میں دوسرا گروہ ان کا ہے جو پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ’سندھو دیش‘ کو اپنا مقصد قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، ایسے علیحدگی پسند گروہوں میں جئے سندھ قومی محاذ کا بشیر قریشی گروپ جس کے موجودہ چیئرمین صنعان قریشی ہیں، جئے سندھ متحدہ محاذ اور دیگر سات آٹھ جماعتیں شامل ہیں۔
کیا صوبے میں قوم پرست سیاست کا مستقبل روشن ہے؟
قوم پرست جماعتوں کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قوم پرست جماعتیں حالیہ کچھ عرصے میں کمزور ہوئی ہیں۔ ان جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ مالی طور بھی مستحکم نہیں۔ لیکن صوبے میں بے روزگاری، بھوک اور فاقوں سے تنگ غریب لوگوں کو قوم پرستوں کے نعروں میں کشش نظر آتی ہے۔
SEE ALSO: اقتصادی راہداری منصوبے پر قوم پرستوں اور حزب مخالف کے تحفظات برقرارتجزیہ کاروں کے مطابق، اقتدار میں رہنے والی جماعتوں سے مایوس لوگوں کو کوئی اور متبادل نظر نہیں آ رہا۔ لہٰذا، لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان جماعتوں کی جانب دیکھنے پر مجبور ہے۔ قوم پرستی کی سیاست کا مستقبل برسر اقتدار جماعتوں کی کارکردگی سے مشروط کیا جا سکتا ہے۔