راولپنڈی کی ’نان بائی ایسوسی ایشن‘ کے نائب صدر ملک ممتاز کا کہنا ہے کہ نان 6 روپے سے بڑھا کر 7 روپے کردیا گیا ہے جبکہ روٹی کی قیمت 5 روپے سے بڑھا کر6 روپے کردی گئی
نیوکراچی کا رہائشی عبداللہ بدھ کی شام سے سخت پریشان ہے جب سے اُس نے ٹی وی پر یہ خبر سنی ہے کہ راولپنڈی کے نان بائیوں نے روٹی کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ کردیا ہے کسی کام میں اس کا دل نہیں لگ رہا۔
اندھیرے منہ گھر سے نکل کر واٹرپمپ چورنگی کی فٹ پاتھ پر دوپہر ڈھلے تک مزدوری کی تلاش میں بیٹھنے والے عبداللہ کو فکر ہے کہ کل سے اسے مزید کچھ محنت کرنا پڑے گی۔عبداللہ نے وائس آف امریکہ کے استفسار پر بتایا کہ مزدوری کا ریٹ تو وہ بڑھا نہیں سکتا نہ ہی آمدنی میں وہ اپنی مرضی سے اضافہ کرسکتا ہے۔
لیکن، اس کے بس میں اتنا ضرور ہے کہ آٹھ گھنٹے کے بجائے وہ روزانہ دس یا بارہ گھنٹے کام کرے، تاکہ روٹی کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو برداشت کرسکے ۔اسے اس حقیقت کا بھی پکا پتہ ہے کہ آج راولپنڈی کے نان بائیوں نے قیمت بڑھائی ہے تو کل کراچی والے بھی ایسا ہی کریں گے۔
راولپنڈی کی نان بائی ایسوسی ایشن کے نائب صدر ملک ممتاز کا کہنا ہے کہ نان 6 روپے سے بڑھا کر 7 روپے کردیا گیا ہے جبکہ روٹی کی قیمت 5 روپے سے بڑھا کر6 روپے کردی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ’ مجبور ی‘ میں کیا گیا ہے، کیونکہ 80 کلو آٹے کا تھیلا 2200 روپے سے بڑھ کر 3000 روپے ہوگیا ہے، گیس کا بل 25 ہزار سے بڑھ کر 30 ہزار روپے ہوگیا، جبکہ یومیہ ڈیڑھ ہزار روپے کوئلے اور لکڑی پر خرچ ہوتے ہیں۔
سندھ میں حکومت کی جانب سے فلورملز کو ان کی مرضی کے مطابق اضافی اور رعایتی نرخوں پر گندم کی فراہمی کے باوجود آٹے کا بحران جاری ہے، جبکہ آٹے کی قیمتیں بدستور آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔یہاں تک کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی آٹے کے دام بڑھا دیے گئے ہیں ۔
مقامی میڈیا میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ حکومت نے چونکہ راتوں رات گندم فراہم کرنے کی لبرل پالیسی تبدیل کرلی ہے اس لئے آٹے کا بحران اور قیمت میں ہو شربا اضافہ ہوچکا ہے۔
حکومت نے فلور ملز کو گندم کی فراہمی کے لیے’لبرل‘ پالیسی اختیار کی گئی تھی جس کے تحت وہ ضرورت کے مطابق گندم حاصل کرسکتے تھے مگر سندھ کے محکمہ خوراک نے اچانک پالیسی تبدیل کرکے فلور ملز پر گندم کی کوٹہ پالیسی کو دوبارہ لاگو کردیاہے جس کا مقصد گندم کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کو روکنا ہے۔
گزشتہ ہفتے آج ہی کے دن یعنی بدھ 16جنوری کو محکمہ خوراک سندھ اور فلورملز مالکان کے درمیان اس نکتے پر اتفاق ہوا تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام بچت بازاروں میں عوام کو آٹا 33 روپے کلو فروخت ہوگا۔ لیکن، عملی طور پر اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ وی او اے کے نمائندے نے بدھ کو مارکیٹ سروے کیا جس کے بعد معلوم ہوا کہ کراچی میں آٹا بدستور بیالیس سے تینتالیس روپے اور اندورون سندھ چوالیس روپے کلو فروخت ہورہا ہے جبکہ کئی علاقوں میں آٹے کی قلت بھی رقرار ہے۔
اس قلت کو اشرافیہ کلاس زیادہ داموں آٹا خریدکے باآسانی جھیل جائے، لیکن متوسط طبقہ پریشان ہے جبکہ عبداللہ جیسے نچلے طبقے کے لوگوں پر یہ فکر سوار ہے کہ وہ مہنگا آٹا اور مہنگی روٹی کو خریدنے کے لئے اپنا پیٹ کاٹیں یا اپنے بچوں کا۔
کراچی سمیت پاکستان میں سینکڑوں عبدااللہ بستے ہیں جن کے لئے ایک روپے کی ’قیمت‘ محض ایک روپیہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایک روپے کی بہت زیادہ ’قیمت‘ ہے۔ اتنی زیادہ کہ کبھی کبھی یہی ایک، ایک روپیہ ان کی جان پر بن آتا ہے۔
اندھیرے منہ گھر سے نکل کر واٹرپمپ چورنگی کی فٹ پاتھ پر دوپہر ڈھلے تک مزدوری کی تلاش میں بیٹھنے والے عبداللہ کو فکر ہے کہ کل سے اسے مزید کچھ محنت کرنا پڑے گی۔عبداللہ نے وائس آف امریکہ کے استفسار پر بتایا کہ مزدوری کا ریٹ تو وہ بڑھا نہیں سکتا نہ ہی آمدنی میں وہ اپنی مرضی سے اضافہ کرسکتا ہے۔
لیکن، اس کے بس میں اتنا ضرور ہے کہ آٹھ گھنٹے کے بجائے وہ روزانہ دس یا بارہ گھنٹے کام کرے، تاکہ روٹی کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو برداشت کرسکے ۔اسے اس حقیقت کا بھی پکا پتہ ہے کہ آج راولپنڈی کے نان بائیوں نے قیمت بڑھائی ہے تو کل کراچی والے بھی ایسا ہی کریں گے۔
راولپنڈی کی نان بائی ایسوسی ایشن کے نائب صدر ملک ممتاز کا کہنا ہے کہ نان 6 روپے سے بڑھا کر 7 روپے کردیا گیا ہے جبکہ روٹی کی قیمت 5 روپے سے بڑھا کر6 روپے کردی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ’ مجبور ی‘ میں کیا گیا ہے، کیونکہ 80 کلو آٹے کا تھیلا 2200 روپے سے بڑھ کر 3000 روپے ہوگیا ہے، گیس کا بل 25 ہزار سے بڑھ کر 30 ہزار روپے ہوگیا، جبکہ یومیہ ڈیڑھ ہزار روپے کوئلے اور لکڑی پر خرچ ہوتے ہیں۔
سندھ میں حکومت کی جانب سے فلورملز کو ان کی مرضی کے مطابق اضافی اور رعایتی نرخوں پر گندم کی فراہمی کے باوجود آٹے کا بحران جاری ہے، جبکہ آٹے کی قیمتیں بدستور آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔یہاں تک کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی آٹے کے دام بڑھا دیے گئے ہیں ۔
مقامی میڈیا میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ حکومت نے چونکہ راتوں رات گندم فراہم کرنے کی لبرل پالیسی تبدیل کرلی ہے اس لئے آٹے کا بحران اور قیمت میں ہو شربا اضافہ ہوچکا ہے۔
حکومت نے فلور ملز کو گندم کی فراہمی کے لیے’لبرل‘ پالیسی اختیار کی گئی تھی جس کے تحت وہ ضرورت کے مطابق گندم حاصل کرسکتے تھے مگر سندھ کے محکمہ خوراک نے اچانک پالیسی تبدیل کرکے فلور ملز پر گندم کی کوٹہ پالیسی کو دوبارہ لاگو کردیاہے جس کا مقصد گندم کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کو روکنا ہے۔
گزشتہ ہفتے آج ہی کے دن یعنی بدھ 16جنوری کو محکمہ خوراک سندھ اور فلورملز مالکان کے درمیان اس نکتے پر اتفاق ہوا تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام بچت بازاروں میں عوام کو آٹا 33 روپے کلو فروخت ہوگا۔ لیکن، عملی طور پر اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ وی او اے کے نمائندے نے بدھ کو مارکیٹ سروے کیا جس کے بعد معلوم ہوا کہ کراچی میں آٹا بدستور بیالیس سے تینتالیس روپے اور اندورون سندھ چوالیس روپے کلو فروخت ہورہا ہے جبکہ کئی علاقوں میں آٹے کی قلت بھی رقرار ہے۔
اس قلت کو اشرافیہ کلاس زیادہ داموں آٹا خریدکے باآسانی جھیل جائے، لیکن متوسط طبقہ پریشان ہے جبکہ عبداللہ جیسے نچلے طبقے کے لوگوں پر یہ فکر سوار ہے کہ وہ مہنگا آٹا اور مہنگی روٹی کو خریدنے کے لئے اپنا پیٹ کاٹیں یا اپنے بچوں کا۔
کراچی سمیت پاکستان میں سینکڑوں عبدااللہ بستے ہیں جن کے لئے ایک روپے کی ’قیمت‘ محض ایک روپیہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایک روپے کی بہت زیادہ ’قیمت‘ ہے۔ اتنی زیادہ کہ کبھی کبھی یہی ایک، ایک روپیہ ان کی جان پر بن آتا ہے۔