صحافیوں کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' (آر ایس ایف) نے پاکستانی اینکر پرسن اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کی 12 روز سے گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں آر ایس ایف ایشیا پیسیفک ڈیسک کے انچارج ڈینیل باستغ نے کہا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں آئین اور قانون کا احترام یقینی بناتے ہوئے واضح کرے کہ عمران ریاض خان کو کہاں اور کن حالات میں رکھا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر عمران ریاض خان کو کچھ ہوا تو 'آر ایس ایف' اس کا ذمے دار پاکستان کی حکومت کو ٹھہرائے گی۔
خیال رہے کہ پاکستانی نیوز چینل 'بول' سے وابستہ اینکر عمران ریاض خان کو پولیس نے 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے حراست میں لیا تھا۔
اُن کی گرفتاری نقص امن کے خدشے کی دفعہ تھری ایم پی او کے تحت عمل میں آئی تھی، تاہم پولیس کے مطابق اُنہیں بعدازاں چھوڑ دیا گیا تھا۔
عمران ریاض خان کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ نامعلوم افراد نے عمران ریاض کو زبردستی دوبارہ حراست میں لے لیا اور اب انہیں حبسِ بیجا میں رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے اُن کے والد کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی زیرِ سماعت ہے۔
'آر ایس ایف' کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب کی پولیس کہہ چکی ہے کہ عمران ریاض خان اُنہیں مطلوب نہیں ہیں۔
بیان کے مطابق پولیس نے عدالت میں اعتراف کیا کہ 'ایجنسیوں' نے ایک پولیس وین طلب کی تھی۔ لہٰذا عدالت کو چاہیے کہ وہ ایجنسیوں سے پوچھے کہ پولیس وین کیوں طلب کی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈینیل باستغ نے الزام لگایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران ریاض کو پاکستان کی ملٹری انٹیلی جینس نے 'اغوا' کیا۔
اُن کے بقول شہباز شریف کی سویلین حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک میں آئین اور قانون کا احترام یقینی بناتے ہوئے صحافی عمران ریاض کو عدالت میں پیش کرے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر دفاع نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ عمران ریاض کہاں ہیں ؟ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'عمران ریاض صحافی تھوڑی ہیں'۔
وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی ایک جگہ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ عمران ریاض صحافی نہیں، بلکہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہیں اور کوئی ایک صحافی بھی ایسا نہیں جو ملک میں لا پتہ ہو۔
عمران ریاض خان حالیہ عرصے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں جب کہ وہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس عمران ریاض خان کو ریاستی اداروں پر تنقید کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم اُنہیں بعدازاں عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بھی عمران ریاض خان کی بازیابی کا مطالبہ
انسانی حقو ق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اینکر عمران ریاض خان کی بازیابی اور نو مئی کے بعد ملک بھر میں اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سول قوانین کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی فوج نے نو مئی کو عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی ہے، تاہم پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کی مخالفت کر رہی ہیں۔