پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنےروسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ٹیلیفون پر گفتگو میں زور دیا کہ ماسکو ترقی پذیر ممالک کو در پیش معاشی مشکلات اور غذائی اشیا کی بلند قیمتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یوکرین سے اناج کی برآمد کے معاہدے کو بحال کردے۔
بدھ کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے بلیک سی گرین انیشیئٹو (بی ایس جی آئی) پر تبادلۂ خیال کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ عالمی خوراک کی سپلائی چین میں خلل پڑنے پر اس کے ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔
یوکرین سے اناج برآمد کرنے کا معاہدہ کیاہے؟
اقوام متحدہ اور ترکی کے تعاون سے ’بلیک سی گرین انیشیئٹو‘ یا بحیرہ اسود کےذریعے اناج کی ترسیل پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت گزشتہ سال اگست سے اب تک یوکرین سے ترقی پذیر ممالک کو 32.9 ملین میٹرک ٹن خوراک برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔
تاہم روس نے اب اس معاہدے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
روس اور یوکرین کے ساتھ جنگ کے دوران طے پانے والے اس معاہدے کے تحت یوکرین سے اناج دنیا کے ان حصوں کو برآمد کرنے کا محفوظ راستہ دیا گیا تھا جہاں لوگ بھوک اور خوراک کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا۔
مبصرین کے خیال میں معاہدہ معطل ہونے کے باوجود گندم جیسی اجناس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوگا۔ دنیا میں اس وقت کافی اناج موجود ہے تاہم متعدد ممالک کو پہلے ہی مقامی سطح پر خوراک کی بڑھتی قیمتوں کا سامنا ہے۔
SEE ALSO: کیا روس یوکرین سے غلہ برآمد کرنے کے معاہدے میں توسیع کر دے گا؟پاکستان میں آٹے کی قیمت بلند ترین سطح پر کیوں؟
دنیا کے دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جہاں گندم اور گنے کی بھر پور یعنی بمپر فصل کے باوجود ملک میں اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
گندم جیسی بنیادی ضروری غذائی شے کی قیمت ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کے ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک برس میں ملک میں آٹے کی فی کلو قیمت میں کوئی 150 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح ایک سال میں چینی کی قیمت میں بھی 80 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔
تجزیہ کار اور ماہرِ اجناس شمس الاسلام کا خیال ہے کہ قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر حکومت کی غلط پالیسی، نامناسب فیصلوں، زیادہ منافع کے حصول کے لیے ذخیرہ اندوزی اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے ہورہا ہے۔
ان کے بقول اس رجحان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کا بین الاقوامی پہلو یہ ہے کہ روس نے یوکرین سے بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی فروخت کے اقدام کو معطل کر دیا ہے جس سے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں اور بھی بلند ہونے کا اندیشہ ہے۔
پاکستان میں گندم کی پیداوار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس پاکستان نے لگ بھگ 30 لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کی تھی اور اس وقت بھی قیمتیں کافی زیادہ تھیں، جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔
ان کے مطابق حکومت کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہونے پر گندم کی درآمد کی اجازت نہیں ملی تھی۔
ان کے خیال میں ملک میں بڑھتی ہوئی گندم کی طلب کے باعث فصل زیادہ ہونے کے باوجود مزید گندم درآمد کرنی پڑے گی۔
انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ روس کی جانب سے عالمی معاہدہ معطل کیے جانے کی وجہ سے اب پاکستان کو ایک بار پھر مہنگی گندم درآمد کرنی پڑے گی جو پہلے ہی غیر ملکی زرِ مبادلہ کی کمی کا شکار ہے۔جب کہ پاکستان کو دیگر اناج بھی اب عالمی مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدنے پڑیں گے۔
شمس الاسلام کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے گندم کی سرکاری قیمت بڑھانے سے آٹے کی قیمت میں ایک سال کے دوران 1800 روپے فی من اضافہ ہوا جس کا براہِ راست اثر آٹے کی قیمت میں اضافے کی صورت میں عام شہریوں پر ہوا ہے۔
قیمتوں میں اضافے سے ان کے خیال میں براہِ راست فائدہ بڑے زمین داروں کو پہنچاہے۔
SEE ALSO: روس یوکرین اناج برآمدگی معاہدہ معطل، مطلب کیا ہے؟سرکاری اداروں کی نااہلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گندم اور آٹے کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی بھی قیمتوں میں اضافے کا سبب ہے۔
بھارت کا چاول کی برآمد پر پابندی کا فیصلہ
بھارت نے بھی گزشتہ ہفتے ہی چاول کی برآمد روکنے کا اعلان کیا ہے جس سے بھارت کی اناج کی برآمدات کی ترسیل لگ بھگ نصف ہوجائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے خوراک کی عالمی منڈیوں میں مزید مہنگائی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے غیر باسمتی سفید چاول کی برآمد پر پابندی عائد کی ہے۔ ملک کے اندر چاول کی قیمت میں ایک ماہ میں لگ بھگ تین فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
بھارتی حکام کے مطابق مون سون کی شدید بارش نے بھی چاول کی فصل کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان میں بھوک کا سنجیدہ نوعیت کامسئلہ
پاکستان میں ایک جانب شاندار فصل کے دعوؤں کے باوجود گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تو وہیں دوسری جانب تازہ ترین گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں بھوک ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔
SEE ALSO: زرعی ملک لیکن پاکستان میں سستے آٹے کے لیے قطاریں، معاملہ ہے کیا؟نئی فہرست میں پاکستان کو دنیا کے 121 ممالک میں 99 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان سمیت 46 ملک ایسے ہیں جہاں سال 2030 تک بھوک کو نچلی سطح تک ختم کرنے کا امکان نہیں اور گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں بھوک کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے۔
’فی الحال غذائی اشیا کی قلت کا امکان نہیں‘
حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں غذائی اجناس کی قلت یا غذائی عدم تحفظ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
فوڈ سیکیورٹی کے وفاقی وزیرطارق بشیر چیمہ نے قومی اسمبلی کو گزشتہ دنوں آگاہ کیا تھا کہ جو لوگ غذائی اشیا کی قوتِ خرید نہیں رکھتے، اُن کے ریلیف کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال گندم اور آلو کی پیداوار اچھی ہوئی ہے ۔ کسان پیکج کے تحت چھوٹے کسانوں کو قرضے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔