سوویت یونین کے سابق سربراہ میخائل گورباچوف نے روس کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ روس ایک بار پھر ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے۔
بدھ کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سوویت یونین کے سابق سربراہ نے روس کی موجودہ صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو شفاف انتخابات اور نئی قیادت کی ضرورت ہے۔
اپنے خطاب میں مسٹر گوربا چوف کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ روس کے عوام خود کو [انتخابی] عمل میں شریک سمجھیں۔ انہوں نے گورنرز کے براہِ راست انتخاب کا نظام بحال کرنے اور پارلیمان کا انتخاب 'سنگل بیلٹ' طریقے سے کرانے کی بھی تجویز دی۔
سابق صدر نے روس کی حکمرانی مخصوص افراد تک محدود کرنے کی پالیسی کی سخت مخالفت کی جسے انہوں نے "اعلیٰ حکومتی عہدوں پر ردو بدل" کا نام دیا۔
سابق صدر، جو روس کی سابق حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں، نے یہ خطاب 19 اگست کی فوجی بغاوت کی 20 ویں سال گرہ سے دو دن قبل کیا ہے۔ 1990ء میں ہونے والی اس بغاوت کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا جس کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔
فوجی بغاوت کی سال گرہ ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب روس میں اس حوالے سے خاصی بے یقینی پائی جاتی ہے کہ آئندہ برس ہونے والے انتخابات کے بعد ملک کا نیا صدر کون ہوگا۔
سوویت یونین کے سابق سربراہ نے اپنے خطاب میں موجودہ روسی وزیرِاعظم ولادی میر پیوٹن کی جماعت 'یونائیٹڈ رشیا پارٹی' کو سوویت دور کی کمیونسٹ پارٹی سے تشبیہ دی۔
تاہم مسٹر گورباچوف نے وزیرِاعظم پیوٹن کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کی دہائی میں روس کو درپیش بحران اور معاشی مسائل پر قابو پاکر ملک کو مستحکم کرنے کا سہرا پیوٹن کے سر باندھا۔
واضح رہے کہ مسٹر پیوٹن 2000ء سے 2008ء تک روس کے صدر رہے تھے۔ تاہم مسلسل تیسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کی راہ میں حائل آئینی رکاوٹ کے باعث انہوں نے اپنے جانشین کی حیثیت سے موجودہ صدر دمیتری میدویدیف کا از خود انتخاب کرکے خود وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی تھی۔
تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر میدویدیف کی مدتِ صدارت کے آئندہ برس خاتمے کے بعد پیوٹن ایک بار پھر صدارتی امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آسکتے ہیں۔