روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے پارلیمان کے ایوانِ بالا سے یوکرین میں فوج داخل کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی جسے پارلیمان نے منظور کرلیا ہے۔
واشنگٹن —
روس کی پارلیمان نے صدر ولادی میر پیوٹن کو یوکرین پر فوج کشی کا اختیار دے دیا ہے جب کہ امریکہ نے یوکرین میں روس کی فوجی نقل و حرکت پر "گہری تشویش" ظاہر کی ہے۔
خیال رہے کہ ہفتے کو یوکرین کے برطرف صدر وکٹر یونو کووچ اور یوکرین کے نیم خود مختار علاقے کریمیا کے نئے وزیرِ اعظم سرگئی اکسینوف نے علاقے کی حفاظت کے لیے روس سے اپنی فوج بھیجنے اپیل کی تھی۔
اس اپیل کے بعد روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے پارلیمان کے ایوانِ بالا سے یوکرین میں فوج داخل کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی جسے پارلیمان نے منظور کرلیا ہے۔
روسی پارلیمان سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی اس قرارداد میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ روسی صدر کو یوکرین کے کس علاقے میں فوج داخل کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے گزشتہ روز یوکرین سے متعلق دیے جانے والے اپنے بیان میں روس کی توہین کی ہے جس کے جواب میں یہ قدم اٹھایا جارہا ہے۔
اپنے اس بیان میں صدر اوباما نے یوکرین میں روسی فوجیوں کی مبینہ نقل و حرکت کی اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ یوکرین میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔
روسی پارلیمان نے ایک علیحدہ قرارداد میں صدر پیوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی رویے پر بطورِ احتجاج واشنگٹن میں تعینات روسی سفیر کو واپس ماسکو بلالیں۔
اطلاعات ہیں کہ روسی پارلیمان کی جانب سے یوکرین پر فوج کشی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد صدر اوباما نے صورتِ حال پر غور کے لیے اپنے قومی سلامتی کے مشیروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا ہے۔
صدر اوباما کی جانب سے صدر پیوٹن اور امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل کی جانب سے اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے صورتِ حال پر تبادلہ خیال کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
خیال رہے کہ کریمیا، یوکرین کے ایک نیم خودمختار علاقہ ہے جہاں روسی زبان بولنے والے افراد کی اکثریت ہونے کے باعث عوام کا جھکاؤ روس کی طرف ہے۔
کریمیا کے نو منتخب وزیراعظم سرگئی اکسینوف نے خطے میں موجود تمام سکیورٹی فورسز پر کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے روس کے صدر سے ’’قیامِ امن‘‘کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔
جناب اکسینوف نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ علاقے کی سکیورٹی فورسز کے جو کمانڈر ان کے احکامات نہیں ماننا چاہتے وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ روسی صدر ولادیمر پوٹن سے کس قسم کی معاونت چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ یوکرین کےروس نواز صدر کی برطرفی اور یورپ نواز عبوری حکومت کے قیام کے بعد اکسینوف کو رواں ہفتے کریمیا کی پارلیمنٹ نے وزیراعظم مقرر کیا تھا۔
جمعرات کو وہاں کی پارلیمان نے ووٹ کے ذریعے علاقائی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے کریمیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کی حمایت بھی کی تھی۔
یوکرین حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ روس پہلے ہی کریمیا میں اپنی فوج داخل کرچکا ہے جس نے علاقے کے تین بڑے ہوائی اڈوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
یوکرینی حکام کے مطابق ہفتے تک کریمیا میں روس کے چھ ہزار سے زائد فوجی داخل ہوچکے ہیں جب کہ مزید اہلکاروں کی آمد جاری ہے۔
یوکرین حکومت نے کریمیا میں روس کی ’’اشتعال انگیزی‘‘ کا طاقت سے جواب نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پیوٹن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں اپنی فوجی نقل و حرکت روک دے۔
یوکرین کے عبوری وزیراعظم آرسنی یتسنیوک نے ہفتہ کو کہا ہے کہ ان کا ملک روس کے ساتھ فوجی تنازع میں نہیں الجھے گا۔
ادھر یوکرین کے قائم مقام صدر الیگزنڈر ٹرچینوو نے اپنے روسی ہم منصب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کریمیا میں ’’اشتعال انگیزی‘‘ ختم کریں۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار نے کریمیا کے دارالحکومت سمفروپول میں ائیر پورٹ پر مسلح افراد دیکھے ہیں تاہم انہوں نے صورتحال کو پرسکون بتایا ہے۔
چند رپورٹس کے مطابق روسی فوجیوں نے سرکاری ٹی وی اسٹیشن کی عمارت کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔
خیال رہے کہ ہفتے کو یوکرین کے برطرف صدر وکٹر یونو کووچ اور یوکرین کے نیم خود مختار علاقے کریمیا کے نئے وزیرِ اعظم سرگئی اکسینوف نے علاقے کی حفاظت کے لیے روس سے اپنی فوج بھیجنے اپیل کی تھی۔
اس اپیل کے بعد روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے پارلیمان کے ایوانِ بالا سے یوکرین میں فوج داخل کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی جسے پارلیمان نے منظور کرلیا ہے۔
روسی پارلیمان سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی اس قرارداد میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ روسی صدر کو یوکرین کے کس علاقے میں فوج داخل کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے گزشتہ روز یوکرین سے متعلق دیے جانے والے اپنے بیان میں روس کی توہین کی ہے جس کے جواب میں یہ قدم اٹھایا جارہا ہے۔
اپنے اس بیان میں صدر اوباما نے یوکرین میں روسی فوجیوں کی مبینہ نقل و حرکت کی اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ یوکرین میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔
روسی پارلیمان نے ایک علیحدہ قرارداد میں صدر پیوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی رویے پر بطورِ احتجاج واشنگٹن میں تعینات روسی سفیر کو واپس ماسکو بلالیں۔
اطلاعات ہیں کہ روسی پارلیمان کی جانب سے یوکرین پر فوج کشی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد صدر اوباما نے صورتِ حال پر غور کے لیے اپنے قومی سلامتی کے مشیروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا ہے۔
صدر اوباما کی جانب سے صدر پیوٹن اور امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل کی جانب سے اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے صورتِ حال پر تبادلہ خیال کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
خیال رہے کہ کریمیا، یوکرین کے ایک نیم خودمختار علاقہ ہے جہاں روسی زبان بولنے والے افراد کی اکثریت ہونے کے باعث عوام کا جھکاؤ روس کی طرف ہے۔
کریمیا کے نو منتخب وزیراعظم سرگئی اکسینوف نے خطے میں موجود تمام سکیورٹی فورسز پر کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے روس کے صدر سے ’’قیامِ امن‘‘کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔
جناب اکسینوف نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ علاقے کی سکیورٹی فورسز کے جو کمانڈر ان کے احکامات نہیں ماننا چاہتے وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ روسی صدر ولادیمر پوٹن سے کس قسم کی معاونت چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ یوکرین کےروس نواز صدر کی برطرفی اور یورپ نواز عبوری حکومت کے قیام کے بعد اکسینوف کو رواں ہفتے کریمیا کی پارلیمنٹ نے وزیراعظم مقرر کیا تھا۔
جمعرات کو وہاں کی پارلیمان نے ووٹ کے ذریعے علاقائی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے کریمیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کی حمایت بھی کی تھی۔
یوکرین حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ روس پہلے ہی کریمیا میں اپنی فوج داخل کرچکا ہے جس نے علاقے کے تین بڑے ہوائی اڈوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
یوکرینی حکام کے مطابق ہفتے تک کریمیا میں روس کے چھ ہزار سے زائد فوجی داخل ہوچکے ہیں جب کہ مزید اہلکاروں کی آمد جاری ہے۔
یوکرین حکومت نے کریمیا میں روس کی ’’اشتعال انگیزی‘‘ کا طاقت سے جواب نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پیوٹن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں اپنی فوجی نقل و حرکت روک دے۔
یوکرین کے عبوری وزیراعظم آرسنی یتسنیوک نے ہفتہ کو کہا ہے کہ ان کا ملک روس کے ساتھ فوجی تنازع میں نہیں الجھے گا۔
ادھر یوکرین کے قائم مقام صدر الیگزنڈر ٹرچینوو نے اپنے روسی ہم منصب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کریمیا میں ’’اشتعال انگیزی‘‘ ختم کریں۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار نے کریمیا کے دارالحکومت سمفروپول میں ائیر پورٹ پر مسلح افراد دیکھے ہیں تاہم انہوں نے صورتحال کو پرسکون بتایا ہے۔
چند رپورٹس کے مطابق روسی فوجیوں نے سرکاری ٹی وی اسٹیشن کی عمارت کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔