یوکرین نے کریمیا میں روس کی ’’اشتعال انگیزی‘‘ کا طاقت سے جواب نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ علاقے میں اپنی فوجی نقل و حرکت روکے۔
وزیراعظم آرسنی یتسنیوک نے ہفتہ کو کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ فوجی تنازع میں نہیں الجھے گا۔
کریمیا، یوکرین کے ایک نیم خودمختار علاقہ ہے اور اس کا جھکاؤ روس کی طرف سے زیادہ ہے۔
دریں اثناء کریمیا کے نو منتخب وزیراعظم سرگئی اکسینوف نے خطے میں موجود تمام سکیورٹی فورسز پر کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے روس کے صدر سے ’’امن ‘‘ کے قیام کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔
ہفتہ کو اکسینوف کا کہنا تھا کہ فورسز کے جو کمانڈر ان کے احکامات نہیں ماننا چاہتے وہ جاسکتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ روسی صدر ولادیمر پوٹن سے کس قسم کی معاونت چاہتے ہیں۔
کریمیا کی طرف سے کیئف کی نئی حکومت کی مخالفت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد اکسینوف کو رواں ہفتے کریمیا کی پارلیمنٹ نے وزیراعظم مقرر کیا تھا۔
ادھر یوکرین کے قائم مقام صدر الیگزنڈر ٹرچینوو نے روس کے صدر ولادیمر پوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ ماسکو کریمیا میں ’’اشتعال انگیزی‘‘ ختم کرے۔
ان کی طرف سے یہ بیان یوکرین کے وزیر داخلہ ارس ایوکوف کے اس انکشاف کے بعد آیا کہ روسی افواج نے کریمیا کے دو بڑے ہوائی اڈوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
مسٹر ٹرچینوو نے اسے ’’کھلی جارحیت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ماسکو کی جانب سے 2008ء میں جارجیا کے علاقے ابخاز میں مداخلت جیسا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار نے کریمیا کے دارالحکومت سمفروپول میں ائیر پورٹ پر مسلح افراد دیکھے تاہم انہوں نے صورتحال کو پرسکون بیان کیا۔
چند رپورٹس کے مطابق روسی فوجیوں نے سرکاری ٹی وی اسٹیشن کی عمارت کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ یوکرین کے ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ 2000 روسی فوجی سمفروپول کے فوجی اڈے پر پہنچے ہیں۔
دریں اثناء، امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی نے رپورٹ کیا ہے کہ یوکرین کوسٹ گارڈ کے ایک اڈے کو بھی تقریباً 30 روسی میرین نے گھیرے میں لے لیا ہے۔
یوکرین کے علاقے کریمیا کے روس کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں اور وہاں سرکاری عمارتوں میں مسلح افراد کے قبصے کے ایک ہی روز کے بعد یہ واقعات پیش آئے۔
جمعرات کو وہاں کی پارلیمان نے ووٹ کے ذریعے علاقائی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے کریمیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔
وزیراعظم آرسنی یتسنیوک نے ہفتہ کو کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ فوجی تنازع میں نہیں الجھے گا۔
کریمیا، یوکرین کے ایک نیم خودمختار علاقہ ہے اور اس کا جھکاؤ روس کی طرف سے زیادہ ہے۔
دریں اثناء کریمیا کے نو منتخب وزیراعظم سرگئی اکسینوف نے خطے میں موجود تمام سکیورٹی فورسز پر کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے روس کے صدر سے ’’امن ‘‘ کے قیام کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔
ہفتہ کو اکسینوف کا کہنا تھا کہ فورسز کے جو کمانڈر ان کے احکامات نہیں ماننا چاہتے وہ جاسکتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ روسی صدر ولادیمر پوٹن سے کس قسم کی معاونت چاہتے ہیں۔
کریمیا کی طرف سے کیئف کی نئی حکومت کی مخالفت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد اکسینوف کو رواں ہفتے کریمیا کی پارلیمنٹ نے وزیراعظم مقرر کیا تھا۔
ادھر یوکرین کے قائم مقام صدر الیگزنڈر ٹرچینوو نے روس کے صدر ولادیمر پوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ ماسکو کریمیا میں ’’اشتعال انگیزی‘‘ ختم کرے۔
ان کی طرف سے یہ بیان یوکرین کے وزیر داخلہ ارس ایوکوف کے اس انکشاف کے بعد آیا کہ روسی افواج نے کریمیا کے دو بڑے ہوائی اڈوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
مسٹر ٹرچینوو نے اسے ’’کھلی جارحیت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ماسکو کی جانب سے 2008ء میں جارجیا کے علاقے ابخاز میں مداخلت جیسا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار نے کریمیا کے دارالحکومت سمفروپول میں ائیر پورٹ پر مسلح افراد دیکھے تاہم انہوں نے صورتحال کو پرسکون بیان کیا۔
چند رپورٹس کے مطابق روسی فوجیوں نے سرکاری ٹی وی اسٹیشن کی عمارت کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ یوکرین کے ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ 2000 روسی فوجی سمفروپول کے فوجی اڈے پر پہنچے ہیں۔
دریں اثناء، امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی نے رپورٹ کیا ہے کہ یوکرین کوسٹ گارڈ کے ایک اڈے کو بھی تقریباً 30 روسی میرین نے گھیرے میں لے لیا ہے۔
یوکرین کے علاقے کریمیا کے روس کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں اور وہاں سرکاری عمارتوں میں مسلح افراد کے قبصے کے ایک ہی روز کے بعد یہ واقعات پیش آئے۔
جمعرات کو وہاں کی پارلیمان نے ووٹ کے ذریعے علاقائی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے کریمیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔