روس نے افغانستان کے مختلف سیاسی رہنماؤں اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے روسی حکومت پر افغان طالبان کو مدد دینے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو کابل میں واقع روسی سفارت خانے کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے سیاسی رہنماؤں، ارکانِ اسمبلی اور اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے بغیر کسی ثبوت کے کھلم کھلا روس پر دہشت گردی کی حمایت اور مالی معاونت کے الزامات عائد کرنا حیران کن ہے اور اس کےنتیجے میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے روس کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
بیان میں افغانستان کے دو ارکانِ اسمبلی اور ایک مقامی پولیس کمانڈر کے اخبارات میں چھپنے والے بیانات کی تردید کی گئی ہے جس میں افغان رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ حال ہی میں پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان کا دورہ کرنے والا روسی فوج کا ایک وفد اپنے پاکستان میزبانوں کے ساتھ علاقے میں موجود طالبان کے مبینہ تربیتی کیمپوں میں بھی گیا تھا۔
اپنے بیانات اور انٹرویوز میں افغان ارکانِ اسمبلی محمد نعیم لالئی حامد زئی اور نادر کتاؤزئی اور افغان پولیس کے ایک اعلیٰ افسر اسداللہ شیرزاد نے روسی فوج کے وفد کے شمالی وزیرستان کے دورے پر تنقید کرتے ہوئے اسے افغانستان کے دشمنوں کی مدد کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
روسی سفارت خانے نے اپنے بیان میں دیگر افغان رہنماؤں کے بھی ایسے بیانات کا حوالہ دیا ہے جن میں روسی حکومت اور فوج کی جانب سے افغان طالبان کو ہتھیار اور مالی مدد فراہم کرنے کے دعوے کیے گئے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم بین الاقوامی اتحادی خصوصاً امریکہ کو دستیاب انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود روس پر طالبان کی مبینہ مدد سے متعلق الزامات کے حق میں کوئی ثبوت یا سیٹلائٹ تصاویر سامنے نہ آنا باعثِ حیرت ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کے خلاف یہ مہم پوری منصوبہ بندی سے چلائی جارہی ہے جس کا مقصد افغانستان میں لوگوں کی توجہ"اپنے آقاؤں کی ناکامی سے ہٹا کر فرضی دشمن" کی جانب مبذول کرانا ہے۔
روسی سفارت خانے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس نے اہم کردار ادا کیا ہے اورروسی حکومت افغانستان کے سکیورٹی اداروں کو اسلحہ، گولہ بارود اور تربیت دینے کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں کو تعلیمی وظائف بھی دے رہی ہے۔