روس نے بدھ کو صدر ولادی میر پوٹن کے خلاف امریکی پابندیوں سے جڑے ہوئے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ یوکرین پر ممکنہ روسی حملے کی صورت میں امریکہ ماسکو پر جن پابندیوں کا اشارہ کر رہا ہے، ان میں صدر بائیڈن کے طرف سے اپنے روسی ہم منصب کے خلاف پابندیاں بھی شامل ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ اس طرح کی پابندیاں سیاسی طور پر تکلیف دہ نہیں بلکہ تباہ کن ہوں گی۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر روس کے راہنما یوکرین کی سرحد پر تیار کھڑے اپنے ایک لاکھ 27 ہزار فوجیوں کو حرکت میں لائے تو ان کو سخت اور وسیع تر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس پر عائد ہونے والی پابندیوں میں صدر بائیڈن کے بقول صدر پوٹن پر ذاتی پابندی بھی شامل ہو گی۔
صدر بائیڈن نے یہ بھی واضح کیا کہ جن ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجیوں کو اس ہفتے’ہائی الرٹ‘ پر رکھا گیا ہے ان میں سے کسی ایک کو بھی یوکرین کے علاقے میں نہیں بھجوایا جا رہا بلکہ ان کو نیٹو آپریشن میں کہیں تعینات کیا جائے گا۔ یہ جوابی کارروائی کلی طور پر امریکہ کی طرف سے نہیں ہو گی بلکہ نیٹو اتحاد اس نقل و حرکت کا فیصلہ کرے گا۔ صدر بائیڈن نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ وہ کب فوجیوں کو بھجوانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
مسئلے کے سفارتی حل کی کوششیں:
یوکرین کے مسئلے کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے روس، امریکہ، نیٹو اور آرگنائزیشن فار سکیورٹی ایند کواپریشن ان یورپ کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا گیا تھا۔
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے بدھ کے روز اراکین پارلیمنٹ کو بتایا کہ روس گزشتہ ہفتے کے اجلاس میں اپنی طرف سے دی گئی تجاویز پر جواب کا انتظار کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مغرب نے جارحانہ حکمت جاری رکھی تو ماسکو ان کے بقول 'سخت جوابی کارروائی کرے گا''۔
ادھر یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکیف نے منگل کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں شہریوں پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’صورتحال ایسی نہیں جسے اچھا کہا جائے، کوئی بچگانہ وہم بھی نہیں ہے، سب کچھ اس قدر آسان نہیں ہے۔ لیکن ایک امید موجود ہے۔‘‘
یوکرین کے صدر کا کہنا تھا کہ اپنے جسم کو وائرس سے محفوظ رکھیں، اپنے دماغ کو جھوٹ سے اور اپنے دل کو خوف و ہراس سے دور رکھیں۔
صدر زیلنسکیف نے بتایا کہ روس، جرمنی اور فرانس کے راہنماوں کے ساتھ ان کی ملاقات کے پروگرام طے ہو رہے ہیں۔
چاروں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان بدھ کو پیرس میں ملاقات ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: روس اور یوکرین کے درمیان تنازع ہے کیا؟فرانس کے صدر ایمونول میخواں نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ روس کے صدر کے ساتھ جمعے کے دن طے ٹیلی فون کال میں روس کے ارادوں سے متعلق وضاحت چاہیں گے۔
پنٹاگان کے ترجمان جان کربی نے منگل کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یوکرین کی سرحد کے نزدیک روسی فوجوں میں اضافہ ایک تواتر سے ہوا ہے نہ کہ اچانک کسی ڈرامائی انداز میں۔
امریکہ نے روس کو یہ کہتے ہوئے بھی خبردار کیا تھا کہ اگر ماسکو نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس پر ایسی سخت اور فوری پابندیاں عائد کی جائیں گی جن پر سال 2014 میں کریمیا کی علیحدگی کے وقت غور نہیں کیا گیا تھا۔
گزشتہ روز امریکہ کے ایک سکیورٹی عہدیدار نے بتایا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایکسپورٹ کنٹرول کے لیے جو آپشنز دیکھ رہے ہیں وہ پوٹن کی طرف سے اپنی معیشت کو صنعت پر استوار کرنے کے دفاعی مقاصد کو بری طرح نقصان پہنچائیں گے۔ اور یہ پابندیاں ان شعبوں کو تباہ کریں گی جو ان کے لیے اہم ہیں۔ بھلے یہ مصنوعی ذہانت کا شعبہ ہو، کوانٹم کمپیوٹنگ کا، دفاع، ایرو سپیس یا اسی طرح کے دیگر اہم شعبے ہوں۔‘
SEE ALSO: یوکرین پر روسی حملے کے جواب میں ایسی پابندیاں لگائیں گے جن پر سال 2014 میں غور نہیں کیا تھا: امریکہ
روس کے اس مطالبے کو کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے سے گریز کیا جائے، مغرب نے مسترد کر دیا ہے۔ مغربی راہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں ویٹو پاور نہیں دے سکتے کہ وہ فیصلہ کرے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف بننے والے تیس ملکی اتحاد میں کس کو شامل کیا جائے اور کس کو نہیں۔
(یہ رپورٹ وائس آف امریکہ کی وائٹ ہاوس کے لیے نمائندہ انیتا پاول اور پنٹگان کے لیے نمائندہ کارلا باب کی رپوٹوں سے ماخوذ ہے، کچھ معلومات خبررساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہے)