یوکرین کے ایک اعلی عہدے دار نے جمعے کے روز ایک بیان میں بتایا کہ روس کی یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 13 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک اعلیٰ مشیر نے فوجی سربراہوں کے حوالےسے بتایا کہ 24 فروری کو روس کے حملے کے بعد سے اب تک جنگ میں 10,000 سے 13,000 یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ یوکرین کی فوجی ہلاکتوں پر شاذ ونادر سامنے آنے والا بیان تھا اور ہلاکتوں کی یہ تعداد مغربی رہنماؤں کے اندازوں سے بہت کم تھی ۔
یوکرین کے صدر کے مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے جمعرات کو چینل 24 ٹی وی پر کہا کہ ہمارے پاس جنرل سٹاف کے سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ ہمارے پاس اعلیٰ کمانڈ کے سرکاری اعداد و شمار ہیں، اور ان کے مطابق ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار اورساڑھے بارہ ہزار سے تیرہ ہزار کے درمیان ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے۔
یوکرین کی فوج نے ایسے اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی ہے اور کسی یوکرینی اہل کار کی جانب سے ایسی تعداد کی فراہمی ایک غیر معمولی مثال ہے ۔
آخری بار ایسا بیان اگست میں سامنے آیا تھا جب مسلح افواج کے سربراہ نے کہا تھا کہ تقریباً 9000 فوجی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ جون میں پوڈولیاک نے کہا تھا کہ جنگ میں اب تک کی کچھ انتہائی شدید لڑائی اور خونریزی میں ہر روز 200 فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔
SEE ALSO: پوٹن کےیوکرینی علاقوں کے انضمام پر دستخط، مغرب کا استرداددوسری جانب روس نے جمعے کے روز مذاکرات سے متعلق مغرب کی جانب سے اس مطالبہ کے جواب میں، کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے مستقبل کی کسی بھی بات چیت کے حصے کے طور پر یوکرین سے مکمل طور پر نکل جائے، کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے ایسے کسی بھی مطالبے کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن مغرب کا یہ مطالبہ کہ ماسکو پہلے یوکرین سے اپنی فوجیں نکالے، ناقابل قبول ہے۔
پیسکوف کے تبصرے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے جب پوٹن نے جمعے کی صبح جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ فون پر بات کی۔ شولز کے دفتر نے کہا کہ انہوں نے پوٹن پر واضح کر دیا ہے کہ جلد سے جلد ایک سفارتی حل ہونا چاہیے، جس میں روسی فوجیوں کا انخلا بھی شامل ہو۔
جمعرات کو، امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی عندیہ دیا کہ وہ پوٹن کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہوں گے اگر وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی سے حملے کو ختم کرنا اور یوکرین سے انخلاء چاہتے ہیں۔
شولز کے ساتھ فون کال کے بعد کریملن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پوٹن نے ایک بار پھر مغرب پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے جنگ کو طول دینے کی ترغیب دے رہا ہے۔
پوٹن نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کی جانب سے مبینہ طور پر جزیرہ نما کرائمیا کے ایک اہم پل پر بمباری کے بعد یوکرین کے بنیادی ڈھانچے پر حالیہ تباہ کن روسی حملے مجبورا اور نا گزیر طور پر کیے گئے ۔
روس نے 2014 میں جزیرہ نما کرائمیا اور توانائی کی تنصیبات کو یوکرین سے چھینا تھا ۔
روسی افواج اکتوبر سے یوکرین کے اہم انفراسٹرکچر پر بمباری کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ سردی کے موسم میں بجلی سے محروم ہو گئے ہیں۔
شولز کے دفتر نے کہا کہ پوٹن کے ساتھ فون پر بات چیت میں چانسلر نے یوکرین میں خاص طور پر شہری انفراسٹرکچر پر روسی فضائی حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ جرمنی یوکرین کو اپنے دفاع میں مدد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
SEE ALSO: عالمی برادری روسی حملوں کی مذمت کرے: یوکرینزیلنسکی کے دفتر نے جمعہ کو اطلاع دی کہ یوکرین میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم تین شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوئے۔ دفتر کے نائب سربراہ کیریلو تیموشنکو نے ٹیلی گرام پر کہا کہ روسی افواج نے جنوب مشرق کے 9 علاقوں پر بھاری توپ خانے، راکٹوں اور طیاروں سے حملہ کیا۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف نے جمعہ کو کہا کہ روسی افواج نے انفراسٹرکچر پر راکٹ حملے اور رابطہ لائن کے ساتھ ساتھ یوکرینی فوجیوں کے مورچوں پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو کی فوجی پیش رفت بخموت اور ایودیوکا سمیت ایک درجن قصبوں پر مرکوز رہی ہے جو جنگ زدہ مشرق میں اہم روسی اہداف ہیں۔
کھیرسن سے روسی فورسز کے انخلا کے بعد سے اس پر روسی گولہ باری خاص طور پر بڑھ گئی ہے ۔کھیرسن کے علاقائی گورنر نے کہا کہ جمعرات کو گولہ باری میں تین لوگ ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔ روسیوں نے شہر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، جس کا کچھ حصہ جمعرات کو روسی حملوں کے بعد بجلی سے محروم رہا۔
مشرقی ڈونیٹسک کے علاقے میں یوکرین کے گورنر پیولوف کیریلینکو نے کہا کہ روسی گولہ باری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ روسی فوج باخموت کے ارد گرد کے کئی دیہاتوں پر قبضہ کر کے اورایک اہم سڑک کو کاٹ کر اس اہم قصبے کو گھیرے میں لینا چاہتی ہے۔
روس کے زیر قبضہ زہوپارینژیا نیوکلیئر پاور پلانٹ سے دریائے دنیپر کے پار شہروں کو نشانہ بنانے والے روسی حملوں کی بھی اطلاع ملی ہے اور شمال مشرقی صوبہ خارکیف میں حکام نے بتایا کہ روسی گولہ باری سے دو خواتین زخمی ہوئیں ہیں ۔
اس خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔