روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کا سنوڈن کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔
واشنگٹن —
روس نے کہا ہے کہ اسے امریکہ کو مطلوب سابق انٹیلی جنس اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے سیاسی پناہ کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔
روس کی 'فیڈرل مائیگریشن سروس' کے سربراہ نے ہفتے کو اپنے ایک بیان میں کیا ہے کہ ان کے ادارے کو اب تک ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے سیاسی پناہ سے متعلق درخواست نہیں ملی۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے بھی – جو سلامتی سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کے لیے کرغزستان کے دورے پر ہیں –کہا ہے کہ ان کی حکومت کا سنوڈن کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔
امریکی حکام نے سنوڈن کا پاسپورٹ منسوخ کردیا ہے جس کے باعث وہ کہیں آنے جانے سے معذور ہیں اور گزشتہ تین ہفتوں سے ماسکو ہوائی اڈے کے ٹرانزٹ لائونج میں مقیم ہیں۔
جمعے کو سنوڈن نے ہوائی اڈے کے ٹرانزٹ ایریا میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی تھی اور خود کو درپیش حالات سے انہیں آگاہ کیا تھا۔
ملاقات کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات جاری کرنے والے ادارے 'وکی لیکس' نے سنوڈن کی جانب سے یہ بیان جاری کیا تھا کہ وہ اس وقت تک روس میں عارضی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جب تک وہ بحفاظت لاطینی امریکہ پہنچنے کے قابل نہیں ہوجاتے جہاں کے تین ممالک نے انہیں پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
امریکی حکومت نے سنوڈن کی انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ملاقات پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ملاقات کی اجازت دینے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
'وہائٹ ہائوس' کے ترجمان جے کارنے نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ روس سنوڈن کو "پروپیگنڈے کے لیے پلیٹ فارم' فراہم کر کے اس معاملے میں غیر جانبدار رہنے کے اپنے اعلان کی نفی کر رہا ہے۔
امریکہ سنوڈن پر 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' کی جانب سے عام شہریوں کی نگرانی سے متعلق معلومات افشا کرنے پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔
قیاس ہے کہ اگر روسی حکومت نے سنوڈن کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا تو اس سے امریکہ اور روس کے تعلقات پر کافی اثر پڑے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر سنوڈن روس میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی سرگرمیوں سے اجتناب برتنا ہوگا جس سے روس کے "امریکی شراکت داروں" کو نقصان پہنچتا ہو۔
جمعے کو سنوڈن کی انسانی حقوق کے کارکنوں سے ملاقات اور روس میں عارضی پناہ کی خواہش ظاہر کرنے کے بعد امریکی صدر براک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کی تفصیل ذرائع ابلاغ کو جاری نہیں کی گئی۔
روس کی 'فیڈرل مائیگریشن سروس' کے سربراہ نے ہفتے کو اپنے ایک بیان میں کیا ہے کہ ان کے ادارے کو اب تک ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے سیاسی پناہ سے متعلق درخواست نہیں ملی۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے بھی – جو سلامتی سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کے لیے کرغزستان کے دورے پر ہیں –کہا ہے کہ ان کی حکومت کا سنوڈن کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔
امریکی حکام نے سنوڈن کا پاسپورٹ منسوخ کردیا ہے جس کے باعث وہ کہیں آنے جانے سے معذور ہیں اور گزشتہ تین ہفتوں سے ماسکو ہوائی اڈے کے ٹرانزٹ لائونج میں مقیم ہیں۔
جمعے کو سنوڈن نے ہوائی اڈے کے ٹرانزٹ ایریا میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی تھی اور خود کو درپیش حالات سے انہیں آگاہ کیا تھا۔
ملاقات کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات جاری کرنے والے ادارے 'وکی لیکس' نے سنوڈن کی جانب سے یہ بیان جاری کیا تھا کہ وہ اس وقت تک روس میں عارضی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جب تک وہ بحفاظت لاطینی امریکہ پہنچنے کے قابل نہیں ہوجاتے جہاں کے تین ممالک نے انہیں پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
امریکی حکومت نے سنوڈن کی انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ملاقات پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ملاقات کی اجازت دینے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
'وہائٹ ہائوس' کے ترجمان جے کارنے نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ روس سنوڈن کو "پروپیگنڈے کے لیے پلیٹ فارم' فراہم کر کے اس معاملے میں غیر جانبدار رہنے کے اپنے اعلان کی نفی کر رہا ہے۔
امریکہ سنوڈن پر 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' کی جانب سے عام شہریوں کی نگرانی سے متعلق معلومات افشا کرنے پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔
قیاس ہے کہ اگر روسی حکومت نے سنوڈن کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا تو اس سے امریکہ اور روس کے تعلقات پر کافی اثر پڑے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر سنوڈن روس میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی سرگرمیوں سے اجتناب برتنا ہوگا جس سے روس کے "امریکی شراکت داروں" کو نقصان پہنچتا ہو۔
جمعے کو سنوڈن کی انسانی حقوق کے کارکنوں سے ملاقات اور روس میں عارضی پناہ کی خواہش ظاہر کرنے کے بعد امریکی صدر براک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کی تفصیل ذرائع ابلاغ کو جاری نہیں کی گئی۔