روس استقامت کے ساتھ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ امن کا قیام شام کے صدر بشارالاسد اور حزب اختلاف کے سرگرم کارکنوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے
روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے کہاہے کہ ماسکو شام کی حکومت کی حمایت کے اپنے موقف میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک شام کے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے القاعدہ جیسے عسکریت پسند گروپوں کو استعمال کررہے ہیں۔
مغربی راہنما شام میں خون خرابہ رکوانے کے لیے مسلسل ماسکو کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ روس استقامت کے ساتھ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ امن کا قیام شام کے صدر بشارالاسد اور حزب اختلاف کے سرگرم کارکنوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مسٹر پوٹن نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل رشیا ٹوڈے میں ایک انٹرویو کے دوران ایک بار پھراس مسئلے کو اپنا موضوع بنایا۔
انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ صرف روس ہی اپنے موقف پر نظرثانی کیوں کرے۔ ان کا کہناتھا کہ مذاکرات میں شامل ان کے شراکت داروں کو بھی اپنے موقف کا ایک بار پھر جائزہ لینا چاہیے۔
ماسکو نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں تین مغربی ممالک کی حمایت یافتہ اس قرار داد کو ، جس میں مسٹر اسد پر تشدد کے خاتمے پر زوردیاگیاتھا ، ویٹو کردیا تھا۔ شام میں جاری تشدد 20 ہزار انسانی جانیں نگل چکاہے۔
کریملن کا کہناہے کہ ا س قرارداد کا مقصد مسٹر اسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا، اور مسٹر پوٹن سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری نہیں ہے۔
روس کو مغربی طاقتوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے جن کا کہناہے کہ ماسکو شام کی حکومت کو ہتھیاروں اور گولا بارود کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
مسٹر پوٹن کہتے ہیں کہ روس اپنے اتحادی دمشق کو اس نوعیت کا فوجی سازو سامان نہیں دے رہا جو شہریوں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کیا جاسکتا ہو۔
اپنے انٹرویو میں روس کے صدر نے مغرب پر الزام لگایا کہ وہ شام میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر عسکریت پسند گروپوں کو استعمال کرکے اس تنازع کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔
مسٹر پوٹن نے اپنے انٹرویو کے دوران امریکہ کا نام تو نہیں لیکن اس جانب اشارہ کیا۔
کریملن کے سویت دور سے شام حکومت سے قریبی تعلقات رہے ہیں اور وہ وہاں اپنی نیوی کا ایک مرکزبھی قائم رکھے ہوئے ہے۔
مغربی راہنما شام میں خون خرابہ رکوانے کے لیے مسلسل ماسکو کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ روس استقامت کے ساتھ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ امن کا قیام شام کے صدر بشارالاسد اور حزب اختلاف کے سرگرم کارکنوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مسٹر پوٹن نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل رشیا ٹوڈے میں ایک انٹرویو کے دوران ایک بار پھراس مسئلے کو اپنا موضوع بنایا۔
انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ صرف روس ہی اپنے موقف پر نظرثانی کیوں کرے۔ ان کا کہناتھا کہ مذاکرات میں شامل ان کے شراکت داروں کو بھی اپنے موقف کا ایک بار پھر جائزہ لینا چاہیے۔
ماسکو نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں تین مغربی ممالک کی حمایت یافتہ اس قرار داد کو ، جس میں مسٹر اسد پر تشدد کے خاتمے پر زوردیاگیاتھا ، ویٹو کردیا تھا۔ شام میں جاری تشدد 20 ہزار انسانی جانیں نگل چکاہے۔
کریملن کا کہناہے کہ ا س قرارداد کا مقصد مسٹر اسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا، اور مسٹر پوٹن سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری نہیں ہے۔
روس کو مغربی طاقتوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے جن کا کہناہے کہ ماسکو شام کی حکومت کو ہتھیاروں اور گولا بارود کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
مسٹر پوٹن کہتے ہیں کہ روس اپنے اتحادی دمشق کو اس نوعیت کا فوجی سازو سامان نہیں دے رہا جو شہریوں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کیا جاسکتا ہو۔
اپنے انٹرویو میں روس کے صدر نے مغرب پر الزام لگایا کہ وہ شام میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر عسکریت پسند گروپوں کو استعمال کرکے اس تنازع کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔
مسٹر پوٹن نے اپنے انٹرویو کے دوران امریکہ کا نام تو نہیں لیکن اس جانب اشارہ کیا۔
کریملن کے سویت دور سے شام حکومت سے قریبی تعلقات رہے ہیں اور وہ وہاں اپنی نیوی کا ایک مرکزبھی قائم رکھے ہوئے ہے۔