اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے بھبود اطفال (یونیسیف) نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے شام کی خانہ جنگی میں1600 افراد لقمہٴاجل بنے، جو کہ 18ماہ سے جاری اِس تنازع کاسب سے زیادہ ہلاکت خیزہفتہ ثابت ہوا۔
یونیسیف کے ترجمان پیٹرک مک کارمک نے اتوار کے دِن کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں، تاہم اُنھوں نے وضاحت نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ اُن کو یہ اعداد کہاں سے ملے۔
شام کے حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکن روزانہ یہ کہتے آئے ہیں کہ جونہی صدر بشار الاسد کی فوج نے اپنی کی آمرانہ قیادت کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے فضائی طاقت کا استعمال شروع کیا، روزانہ 100سے200تک افراد ہلاک ہورہے ہیں۔
باغیوں اور حکومتی ذرائع سےروزانہ کی بنیاد پرموصول ہونے والی اطلاعات کی تصدیق کرنا دشوا ر معاملہ ہے، کیونکہ لڑائی اور حکومتی سینسر شپ کےباعث متعدد غیر ملکی صحافی موقع پر موجود نہیں ہیں۔
شام کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ہونے والی شورش کے دوران دمشق میں سکیورٹی سے متعلق ایک احاطے کے قریب پھٹنے والے دو بموں کے نتیجے میں چار افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری ’فری سیریئن آرمی‘ نے قبول کی ہے۔
سرکاری میڈیا کی خبروں میں دارالحکومت کے ابو رمانع ضلعے میں ہونے والے اِن بم حملوں کو ’دہشت گردی کا اقدام‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی گئی ہے۔
حکومتِ شام نے کہا ہے کہ دوسرا حملہ ہفتے کو رات گئے دمشق کے مضافات میں ہوا جب کار میں نصب بم پھٹنے سے دھماکہ ہوا۔ واقع میں 15افراد ہلاک ہوئے۔ حالیہ مہینوں کے دوران شام کے دارالحکومت اور اُس کے مضافات میں بم حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا ہے، جن میں سے زیادہ تر میں صدر اسد کے سکورٹی اسٹیبلش منٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
شام کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ مسٹر اسد کی افواج نے اتوار کوباغیوں کےزیرِ قبضہ متعدد صوبوں پر بم حملے کیے۔ شام میں جاری شورش کا آغاز مارچ 2011ء میں پُرامن احتجاجی مظاہروں سے ہوا ،لیکن جونہی حکومت نے ملکی طاقت سے مخالفین کو کچلنے کی کوشش کی، یہ خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔
بین الاقوامی امن کے نئے ایلچی، لخدار براہیمی نے ہفتے کے روز کہا کہ شام میں تبدیلی ’ضروری، لازم اور ناگزیر ہے‘۔
تاہم، الجزیرہ کے عرب ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون جاتا ہے اور کون باقی رہتا ہے۔
مغربی ممالک اور اُن کے عرب اتحادیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مسٹر اسد اقتدار سے دستبردار ہوجائیں، تاہم روس، چین اور ایران نے اِس مطالبے کو شامی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
یونیسیف کے ترجمان پیٹرک مک کارمک نے اتوار کے دِن کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں، تاہم اُنھوں نے وضاحت نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ اُن کو یہ اعداد کہاں سے ملے۔
شام کے حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکن روزانہ یہ کہتے آئے ہیں کہ جونہی صدر بشار الاسد کی فوج نے اپنی کی آمرانہ قیادت کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے فضائی طاقت کا استعمال شروع کیا، روزانہ 100سے200تک افراد ہلاک ہورہے ہیں۔
باغیوں اور حکومتی ذرائع سےروزانہ کی بنیاد پرموصول ہونے والی اطلاعات کی تصدیق کرنا دشوا ر معاملہ ہے، کیونکہ لڑائی اور حکومتی سینسر شپ کےباعث متعدد غیر ملکی صحافی موقع پر موجود نہیں ہیں۔
شام کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ہونے والی شورش کے دوران دمشق میں سکیورٹی سے متعلق ایک احاطے کے قریب پھٹنے والے دو بموں کے نتیجے میں چار افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری ’فری سیریئن آرمی‘ نے قبول کی ہے۔
سرکاری میڈیا کی خبروں میں دارالحکومت کے ابو رمانع ضلعے میں ہونے والے اِن بم حملوں کو ’دہشت گردی کا اقدام‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی گئی ہے۔
حکومتِ شام نے کہا ہے کہ دوسرا حملہ ہفتے کو رات گئے دمشق کے مضافات میں ہوا جب کار میں نصب بم پھٹنے سے دھماکہ ہوا۔ واقع میں 15افراد ہلاک ہوئے۔ حالیہ مہینوں کے دوران شام کے دارالحکومت اور اُس کے مضافات میں بم حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا ہے، جن میں سے زیادہ تر میں صدر اسد کے سکورٹی اسٹیبلش منٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
شام کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ مسٹر اسد کی افواج نے اتوار کوباغیوں کےزیرِ قبضہ متعدد صوبوں پر بم حملے کیے۔ شام میں جاری شورش کا آغاز مارچ 2011ء میں پُرامن احتجاجی مظاہروں سے ہوا ،لیکن جونہی حکومت نے ملکی طاقت سے مخالفین کو کچلنے کی کوشش کی، یہ خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔
بین الاقوامی امن کے نئے ایلچی، لخدار براہیمی نے ہفتے کے روز کہا کہ شام میں تبدیلی ’ضروری، لازم اور ناگزیر ہے‘۔
تاہم، الجزیرہ کے عرب ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون جاتا ہے اور کون باقی رہتا ہے۔
مغربی ممالک اور اُن کے عرب اتحادیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مسٹر اسد اقتدار سے دستبردار ہوجائیں، تاہم روس، چین اور ایران نے اِس مطالبے کو شامی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔