روس اِس ماہ کے اواخر میں افغانستان پر ایک علاقائی اجلاس منعقد کرے گا، تاکہ طویل مدت سے جاری افغان تنازع کے تصفیے کی کوششوں پر بات کی جا سکے، اور داعش کی دہشت گردی کے پھیلاؤ کو روکنے کا اہتمام ہو سکے، جو اس لڑائی کے شکار ملک میں پیر جمانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
روس نے دسمبر کے آخر میں ایک سہ فریقی اجلاس منعقد کیا تھا جس میں صرف پاکستان اور چین کو مدعو کیا گیا تھا، جس بات پر افغان حکومت نے سخت احتجاج کیا تھا کہ اُسے اجلاس سے باہر رکھا گیا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کے روز کہا ہے کہ افغانستان کو وسط فروری کی بات چیت کے دوسرے مرحلے میں شرکت کے لیے باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا ہے، جہاں چین، ایران، بھارت اور پاکستان کے اعلیٰ اہل کار بھی موجود ہوں گے۔
لاوروف نے یہ بیان ماسکو میں دورے پر آئے ہوئے افغان ہم منصب، صلاح الدین ربانی کے ساتھ بات چیت کے بعد دیا۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ مدعو کیے گئے زیادہ تر ملکوں نے شریک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
تقریباً دو برس قبل، داعش نے افغانستان میں قدم رکھا۔ وہ ملک کے علاوہ پاکستان کے کچھ حصوں کے اندر انتہاپسند حملے کرتی رہی ہے، جس کی علاقے میں کارستانیاں ’صوبہٴ خوراسان کی داعش‘ کے نام سے کی جا رہی ہے۔ تاہم، دہشت گرد گروپ کی اب تک کی کارروائیاں مشرقی افغان صوبہٴ ننگرہار کے چند اضلاع تک محدود ہیں، جس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔
داعش کی تشدد پر مبنی کارروائیاں پاکستان کے لیے باعثِ پریشانی ہیں، جس کی افغانستان کے ساتھ سرحد تقریباً 2600 کلومیٹر طویل ہے۔