افغانستان کے شکوے کا ازالہ کرتے ہوئے، منگل کے روز ماسکو میں مذاکرات کے بعد روس، چین اور پاکستان نے مشترکہ اعلان کیا کہ آئندہ کے اجلاسوں میں افغانستان کو شرکت کی دعوت دی جائے گی، جِن میں افغانستان میں داعش کے شدت پسندوں کی جانب سے درپیش خدشات پر گفتگو ہوگی۔
افغان حکام نے شکایت کی تھی کہ روسی دارالحکومت میں ہونے والے سہ روزہ مذاکرات سے اُنھیں دور رکھا گیا، جس کا مقصد’’افغانستان کی بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال‘‘ کو زیر بحث لانا تھا۔
تینوں ملکوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ افغانستان اور طالبان کے مابین امن بات چیت کے لیے سہولت فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس سے قبل، روس، چین اور پاکستان پر مشتمل سہ ملکی ورکنگ گروپ نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال ابتر ہے جس کے باعث وہاں شدت پسند تنظیم داعش اپنے قدم جما رہی ہے۔
منگل کو ماسکو میں سہ ملکی اجلاس کےبعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے بتایا کہ اجلاس میں شریک تینوں ممالک کو افغانستان میں داعش سمیت شدت پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر گہری تشویش ہے۔
ترجمان نے کہا کہ روس، چین اور پاکستان سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتِ حال ابتر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تینوں ملکوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پرامن مذاکرات ممکن بنانے کے لیے بعض شخصیات کے نام عالمی پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی نے اقوامِ متحدہ سے افغان طالبان کے نئے سربراہ کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی جن پر عالمی ادارے نے سفری اور دیگر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
افغان صدر کی اس درخواست پر کئی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس قدم سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا اور افغان تنازع کے پرامن حل کے امکانات مزید معدوم ہوجائیں گے۔
منگل کو ہونے والے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے روسی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں شریک تینوں ملکوں کے نمائندوں نے آئندہ ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کو دعوت دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
افغانستان کے تین پڑوسی ملکوں – روس، چین اور پاکستان – کے مابین ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ تیسرا اجلاس تھا جس میں تینوں ملکوں نے خطے خصوصاً افغانستان کی صورتِ حال اور وہاں قیامِ امن کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا۔
اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کی تھی جب کہ چین اور روس کے بھی اعلیٰ حکام اجلاس میں شریک ہوئے۔
گزشتہ دو اجلاسوں کی طرح ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں بھی افغانستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی جس پر افغان حکومت نے برہمی ظاہر کی تھی۔
منگل کو اجلاس سے قبل افغان حکومت کے ترجمان احمد شکیب مستغنی نے کہا تھا کہ کابل حکومت کو نہ تو اجلاس میں شرکت کی دعوت ملی ہے اور نہ ہی اجلاس کے ایجنڈے سے متعلق کچھ بتایا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال پر ہونے والے ایسے اجلاسوں میں افغان نمائندوں کی عدم شرکت سے نہ صرف ان سرگرمیوں کے مقاصد پر سوال کھڑے ہوتے ہیں بلکہ ان کے خاطر خواہ نتائج بھی حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
افغان نمائندوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہ دینے پر افغان پارلیمان کے ارکان اور ذرائع ابلاغ نے بھی کڑی تنقید کی تھی جب کہ بعض افغان حکام نے روس پر طالبان کو مدد دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے اس اجلاس میں امریکہ اور افغان حکومت کی عدم شرکت سے کابل اور واشنگٹن کے مقتدر حلقوں میں تشویش بڑھ رہی ہے اور انہیں شکایت ہے کہ افغانستان کے مستقبل سے متعلق ہونے والی اس اہم بات چیت میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔