روس نے جمعہ کے روز مغرب سے کہا کہ وہ کسی بھی ایسی کارروائی کو اپنے اوپر حملے کے طور پر دیکھے گا جس سے مالڈووا کے الگ ہونے والے علاقے ٹرانسڈنیسٹریا میں روسی امن دستوں کو خطرہ لاحق ہو۔
اس سے ایک روز قبل ماسکو نے یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
کیف میں صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ماسکو کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یوکرین خطے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
یہ انتباہ یوکرین سے متصل ایک چھوٹی سابق سوویت جمہوریہ مالڈووا میں ممکنہ روسی خطرے کے خدشات کے درمیان آیا ہے۔ مالڈووا کی یورپ نواز صدر مایا سانڈو نے اس ماہ ماسکو پر بغاوت کی سازش کا الزام لگایا تھا۔
جمعرات کو روس نے کیف پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کی سرحد سے متصل ٹرانسڈنیسٹریا پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر روسی زبان بولی جاتی ہے اور یہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ایک سال پہلے 1990 میں مالڈووا کے کنٹرول سے نکل گیا تھا۔
SEE ALSO: امریکہ یوکرین اور 18 دوسرے ملکوں کو سیکیورٹی کی نئی امداد دے گا: اینٹنی بلنکنروس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’’ہم امریکہ، نیٹو کے رکن ممالک اور ان کے یوکرینی حلیفوں کو ایک اور غیرذمہ دارانہ قدم اٹھانے سے خبردار کرتے ہیں۔‘‘
’’کوئی بھی اقدام جس سے ان کی سلامتی کو خطرہ ہو، اسے بین الاقوامی قانون کے تحت روسی فیڈریشن پر حملہ تصور کیا جائے گا۔‘‘
ٹرانسڈنیسٹریا میں، جس کی آبادی لگ بھگ چار لاکھ 40 ہزار ہے تقریباً 1700 روسی فوجی موجود ہیں۔
زیلنسکی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ روس مسلسل اشتعال انگیزی میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’وہ واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم مالڈووا کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ٹرانسڈنیسٹریا کا علاقہ مالڈووا کی آزاد ریاست کا علاقہ ہے۔‘‘
مالدووا کی وزارت دفاع نے روس کی جانب سے یوکرینی فوج کی تعیناتی کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
مالڈووا کی وزارت نے کہا ہے کہ ’’ہم نوٹ کرتے ہیں کہ فی الحال ریاست کی فوجی سلامتی کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔۔ اگر ملک کی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کی جاتی ہے، تو وزارت فوری طور پر عوام کو آگاہ کرے گی‘‘ ۔
’’پھیلائی جانے والی غلط معلومات کا مقصد دریائے ڈینیسٹر کے دونوں کناروں کی آبادی میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ ہم شہریوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘
زیلنسکی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ ’’واضح‘‘ ہے کہ ماسکو کی نگاہوں میں یوکرین آخری ملک نہیں ہے اور کریملن مالڈووا کو ’’گلا دبانے‘‘کے طریقوں کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
(اس خبر کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں۔)