روس کو یوکرین کے خلاف جارحیت پر عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےاب کھیل کے میدان میں بھی کئی عالمی مقابلوں میں روس کے کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا ماسکو کی رکنیت معطل کر چکی ہے تو ومبلڈن ٹینس میں بھی روس کے کھلاڑیوں کی شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عالمی نمبر دو اور روسی ٹینس اسٹار ڈینئل مدویدیف، بیلاروس سے تعلق رکھنے والی عالمی نمبر چار آرینا سابالینکا گزشتہ برس ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے البتہ اس بار وہ ومبلڈن کی جانب سے پابندی کی وجہ سے ایونٹ میں شرکت کرنے سے قاصر رہیں گے۔
ومبلڈن ٹینس ٹورنامنٹ منعقد کرنے والے آل انگلینڈ کلب کے مطابق اس بار کوالیفائی کرنے کے باوجود بھی روس اور بیلاروس کے کھلاڑی گرینڈ سلِم کا حصہ نہیں ہوں گے۔
کلب کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کی وجہ سے روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں کی عالمی ٹورنامنٹ میں شرکت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
اس فیصلے سے جہاں یو ایس اوپن چیمپئن ڈینئل مدویدیف اور ٹاپ ٹین میں موجود آرینا سیبا لینکا متاثر ہوں گے وہیں مردوں کے عالمی نمبر آٹھ آندرے روبلیو ، خواتین رینکنگ میں نمبر 15 پر موجود انسٹیزیا پیولی چینکووا اور دو بار آسٹریلین اوپن کی فاتح وکٹوریہ ازارینکا بھی اس مرتبہ ایونٹ میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔
ٹاپ ایتھلیٹس پر پابندی کے فیصلے پر ملا جلا ردِعمل
روسی کھلاڑیوں پر پابندی کے فیصلے کو جہاں برطانوی وزیرِ کھیل نائیجل ہڈلسٹن نے ایک عمدہ فیصلہ قرار دیا۔ وہیں روس کی حکومت کے نمائندے دمیتری پیسکو کا اس معاملے پر ردِعمل سامنے آ گیا ہے۔
روس کی حکومت نے ومبلڈن کے یک طرفہ فیصلے کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ نے ایک بار پھر ایتھلیٹس کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر ماضی کی یاد تازہ کر دی۔ روس کے کھلاڑیوں پر پابندی سے ومبلڈن کا نقصان ہوگا، جو اس بار ٹاپ ایتھلیٹس کے بغیر کھیلا جائے گا۔
روسی کھلاڑی آندرے روبلیو نے بھی ومبلڈن کے فیصلے کو امتیازی سلوک قرار دیا دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن وجوہات پر انہیں اور بیلاروس کے کھلاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی وہ ناکافی ہیں۔
عالمی نمبر ایک ٹینس کھلاڑی نواک جوکووچ ، جو رواں سال کرونا ویکسین نہ لگوانے کی وجہ سے آسٹریلین اوپن نہیں کھیل سکے تھے، نے اس فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
جوکووچ کا کہنا تھا کہ کھیل اور سیاست کو الگ الگ ہی رکھنا چاہیے۔ وہ خود ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے جنگ اور اس کے بعد ہونے والی تباہی کو جھیلا۔ اس لیے اس قسم کے فیصلوں سے وہ کبھی خوش نہیں ہوتے۔
لیجنڈری امریکی کھلاڑی بلی جین کنگ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے فیصلوں کو بطور ایک سابق کھلاڑی اور بانی ویمنز ٹینس ایسوسی ایشن وہ حمایت نہیں کرسکتیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ڈبلیو ٹی اے کے پیچھے مقصد ہی یہی تھا کہ دنیا میں کوئی بھی لڑکی جو ٹینس کھیلتی ہے، اگر وہ اچھا کھیلتی ہے تو وہ انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لے سکے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1973 میں بھی وہ کھلاڑیوں پر پابندی کے خلاف تھیں اور آج بھی انفرادی کھلاڑیوں پر صرف ان کے ملک کی وجہ سے پابندی کی مخالف ہیں۔
ٹینس کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم کی بھی ومبلڈن کے فیصلے پر کڑی تنقید
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا، مینز ٹینس کی نمائندہ تنظیم اے ٹی پی اور خواتین کی نمائندہ تنظیم ڈبلیو ٹی اے نے ومبلڈن کی جانب سے اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے اسے امتیازی اور نقصان دہ روایت قرار دیا ہے۔
اے ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں پر برطانوی گراس کورٹس پر پابندی کو ایک خطرناک روایت اور نامناسب قدم سمجھتے ہیں۔
ان کے بقول قومیت کی بنیاد پر امتیاز ، ومبلڈن کے ساتھ اے ٹی پی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، کیوں کہ ان ٹورنامنٹس میں انٹری کا فیصلہ اے ٹی پی رینکنگ کرتی ہے، ان کی قومیت نہیں ۔
ویمنز ٹینس ایسوسی ایشن (ڈبلیو ٹی اے) کے چیف اسٹیو سائمن کا کہنا ہے کہ آج تک ٹینس میں ہمیشہ میرٹ اور قابلیت کو ترجیح دی گئی ہے، کھیل اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہیے نہ کہ ایک کی وجہ سے دوسرا متاثر ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے فیصلوں کے بعد ڈبلیو ٹی اے اور اے ٹی پی کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔
ایک برطانوی جریدے کے مطابق اگر ومبلڈن کی انتظامیہ سے کھلاڑیوں کے معاملات طے نہ ہوئے، تو گرینڈ سلِم کو 'نمائشی ایونٹ' بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ومبلڈن نے قومیت کی بنیاد پر کھلاڑیوں کی شرکت پر پابندی لگائی ہے۔ اس سے قبل دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان کے ٹینس اسٹارز پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔