|
ایک روسی ماہر طبعیات نے کہا ہے کہ ماسکو کو یوکرین جنگ میں اپنے اہداف جلد حاصل کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس مشورے کے منظر عام پر آنے سے ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا روس واقعی اس جنگ میں مہلک ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے نام ایک خط میں پرم اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اناٹولی وولنٹسیو کی طرف سے یہ مشورہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تقریباً ڈھائی سال سے جاری جنگ میں جب یوکرین کی فوج نے روس کے کرسک خطے میں داخل ہو کر کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
خط میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ روس کو مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کی طرف سے یوکرین کے لیے فوجی ساز و سامان کی سپلائی کو منقطع کرنا چاہیے۔
فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں کریملن پہلے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف اشارہ کر چکا ہے جس کے جواب میں امریکہ نے ایسے اقدام کے خلاف خبر دار کیا کہ روس کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اس صورت حال میں ماسکو کے مو قف اور ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ایک انتہائی غیر معمولی آپشن نظر آتا ہے لیکن اس معاملے پر روس کی پالیسی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ماہرین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جب روس کی جانب سے ایٹمی اسلحے کے استعمال کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد ٹیکٹیکل ہتھیار ہے۔
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کیا ہیں؟
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار اسٹریٹجک ایٹمی ہتھیاروں سے چھوٹے ہوتے ہیں جو میدان جنگ میں استعمال کے کیے بنائے جاتے ہیں۔
دفاعی شعبے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان ہتھیاروں کا مقصد دشمن کے اہداف کو کسی مخصوص علاقے میں تباہ کرنا ہے۔ اسٹریٹجک ہتھیاروں کے مقابلے میں ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا مقصد بڑے پیمانے پر تباہی اور تابکاری اثرات پیدا کیے بغیر دشمن کو نقصان پہنچانا ہے۔
تحقیقی ادارے "اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ" کے مطابق دنیا بھر میں ایٹمی طاقتیں اپنے مہلک ہتھیاروں کو جدید بنا رہی ہیں اور ان کا ایٹمی اسلحے پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ ان ملکوں میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اور اسرائیل شامل ہیں۔ امریکہ اور روس کے بعد چین نے بھی اپنے ہتھیاروں کو ہائی الرٹ حالت میں رکھنا شروع کر دیا ہے۔
SEE ALSO: میدان جنگ میں ہار سے دوچار روس کچھ بھی کر سکتا ہے، جنرل کلارکٹیکٹیکل ہتھیاروں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی قوت ایک کلو سے 50 کلوٹن بارودی طاقت کے ہوتے ہیں۔ جب اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کی قوت 100 کلوٹن بارودی طاقت سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہیروشما پر گرائے گئے جوہری بم کی بارودی قوت 15 کلو ٹن تھی۔
لیکن وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیروشما اور ناگاساکی پر امریکہ کی طرف سے گرائے گئے بموں کے مقابلے میں موجودہ دور کے امریکی اور روسی ہتھیاروں کی تباہی پھیلانے کی استعداد بہت زیادہ ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کی ایران کو شاہین میزائل فراہم کرنے کی تردیدمحمد علی جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سلامتی کے امور پڑھاتے رہے ہیں، کہتے ہیں روس کے پاس ٹیکٹیل اسلحے کی تعداد مغربی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
"اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کے نزدیک ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی اہمیت زیادہ ہے۔ اور یہ کہ روس مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ان ہتھیاروں کو جلد اور زیادہ مواقع پر استعمال کر سکتا ہے۔"
بین الاقوامی رد عمل اور اقتصادی قیمت کے خدشات
ماہرین کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں سے لیس طاقتیں ان مہلک ہتھیاروں کو کئی وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کرتیں۔ عام طور پر ایٹمی ہتھیاروں کو طاقت کے توازن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ممالک ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے اپنے حریفوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ جارحیت سے باز رہیں۔
لیکن موجودہ عالمی نظام میں ایٹمی اسلحے کے جنگ میں استعمال کی بہت بڑی سیاسی، اقتصادی اور تجارتی قیمت بھی ہے۔
مثال کے طور پر ڈاکٹر محمد علی، جنہوں نے نیوکلیئر ڈاکٹرائن پر مقالہ لکھا ہے، کہتے ہیں کہ روس ان ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں عالمی سطح پر تجارتی اور اقتصادی قیمت سے واقف ہے۔
SEE ALSO: نیٹو ممالک یوکرین کو ہتھیار دے کر تنازعے میں شامل ہو رہے ہیں: روسی صدروہ کہتے ہیں روس کے اس اسلحے کے استعمال سے گریز کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس کے عملی طور پر استعمال سے یہ پیغام جائے گا کہ روس کی روایتی طاقت ناکام ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد روس پر ایران اور شمالی کوریا سے بھی زیادہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ امریکہ اور یورپی ملکوں کی طرف سے ان پابندیوں کے باعث روس نہ صرف اپنے عالمی اثاثوں تک رسائی سے محروم ہو گیا ہے بلکہ اس کی آزادانہ تجارت کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
دوسری طرف، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر جاری بڑی طاقتوں کی مسابقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے بھارت اور چین جیسے بڑے اقتصادی ملکوں کے ساتھ توانائی اور دفاع کے شعبے میں تجارت بڑھا کر ان پابندیوں کے اثرات کو بڑی حد تک زائل بھی کیا ہے۔
محض پیغام یا سنجیدہ خطرہ؟
دفاعی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ صدر پوٹن یا روسی ماہرین کی طرف سے ایٹمی اسلحے کے استعمال کی دھمکیاں نیٹو اور مغربی ملکوں کے لیے پیغام ہے کہ وہ یوکرین جنگ میں ایک حد سے زیادہ ملوث نہ ہوں۔
اس سلسلے میں محمد علی کہتے ہیں کہ یوکرین جنگ کے آغاز میں ہی پوٹن نے ایٹمی مشقوں کے ذریعے یہ اشارہ دیا تھا کہ دنیا اس جنگ میں ملوث ہونے سے باز رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نیٹو نے اگرچہ یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے ایف سولہ جنگی طیاروں سمیت ساز و سامان تو دیا ہے لیکن امریکہ نے براہ راست جنگ میں اپنے فوجی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق اس امریکی فیصلے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کو کم کرنا ہے۔
لیکن دوسری جانب مبصرین روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کو ایک بڑے عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں اور دنیا کو درپیش خطرات سے متنبہ کرتے ہیں۔
SEE ALSO: واشنگٹن میں نیٹو سربراہان کا اجلاس: چین سے روس کی معاونت بند کرنے کا مطالبہواشنگٹن میں امریکن یونیورسٹی کے "سکول آف انٹرنیشنل سروس" میں "ابن خلدون اسلامک اسٹڈیز" کے سربراہ پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ معاملہ صرف روس اور یوکرین کی جنگ کا نہیں ہے۔
ان کے بقول اس وقت دنیا کو بیک وقت جن تباہ کن خطرات کا سامنا ہے اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔
"ایک طرف تو بڑی عالمی طاقتوں میں مسابقت اور عداوت شدید ہو رہی ہے اور دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات صرف روس اور یوکرین کے حوالے سے نہیں ہیں بلکہ جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور ایشیا میں نیوکلیئر تصادم کی باتیں ہو رہی ہیں۔"
ڈاکٹر اکبر احمد، جنہوں نے اپنی "دی تھسل اینڈ دی ڈرون" کتاب میں جدید تہذیب کو درپیش خطرات پر روشنی ڈالی تھی، خبردار کرتے ہیں کہ ان حالات میں کوئی حادثاتی واقعہ بھی بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی جنگ میں بڑی طاقتوں کے زیادہ ملوث ہونے سے تو پوری دنیا کے انسانوں کو وجودیت کا خطرہ لاحق ہو گا۔
SEE ALSO: بلنکن کا روس کی جنگی کوششوں کی حمایت پر چین کو انتباہ"یہ صرف میرا تجزیہ نہیں ہے بلکہ نوم چامسکی اور نیل فرگسن جیسے ماہرین اس بارے میں اپنے خدشات کو اظہار کر چکے ہیں جب کہ اسرائیلی تاریخ دان یووال ہراری نے تو کہا ہے کہ ایک بڑی ایٹمی جنگ کی صورت میں شاید انسانی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔"
وہ کہتے ہیں کہ جب روس کی بات کی جاتی ہے تو کا مطلب پوٹن ہے جو کہ ایک ڈکٹیٹر ہیں اور پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے خود ہی مجاز ہیں۔ میدان جنگ میں بڑے چیلنجز ابھرنے کی صورت میں وہی فیصلہ کریں گے اور کیونکہ روس میں مغربی جمہوری نظام کی طرح کام نہیں ہوتا وہ کچھ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اکبر احمد مزید کہتے ہیں یہ بات اب واضح ہے کہ دنیا "سرد جنگ کے دوسرے دور" میں داخل ہو چکی ہے جہاں کوئی بھی واقعہ کسی "گرم جنگ" کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
"اس بھیانک خواب کو حقیقت بننے سے بچانے کے لیے امریکہ، یورپ، چین اور روس سب کو ایک قدم پیچھے ہٹ کر سوچنا ہو گا اور اپنی پالیسیوں میں انسانوں کی فلاح اور بقا کو ایک اہم عنصر کے طور پر شامل کرنا ہو گا۔"