روسی صدر ولادی میر پوٹن نے بدھ کو کہا ہے کہ وہ یوکرین میں ایک لمبی جنگ دیکھ رہے ہیں لیکن وہ فی الحال مزید فوجی متحرک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
پیوٹن نے ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے کریملن میں انسانی حقوق کونسل کے ایک اجلاس کے دوران کہا کہ ہم اپنے اختیار میں موجود تمام ذرائع سے اپنا دفاع جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب روس کو دوسرے درجے کے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتا ہے جسے اپنا وجود برقرار رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
جنگ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک خصوصی فوجی آپریشن کا تعلق ہے تو یقیناً یہ ایک طویل عمل ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ اب اپنے 10 ویں مہنیے میں داخل ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ستمبر اور اکتوبر میں تین لاکھ ریزو فوجیوں کو بلانے کے بعد اب دوسری بار انہیں متحرک کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔
اس حکم کے نتیجے میں روسی عوام میں تشویش پیدا ہوئی اور بہت سے روسی شہری خود کو جنگ میں جھونکے جانے سے بچانے کے لیے ملک سے فرار ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ جن ریزرو دستوں کو بلایا گیا تھا ان میں سے ڈیڑھ لاکھ افراد یوکرین میں تعینات ہیں جن میں سے 77 ہزارلڑنے والے یونٹوں میں ہیں جب کہ باقی دفاع سے متعلق دیگر فرائض کی انجام دہی کر رہے ہیں۔
باقی ماندہ ڈیڑھ لاکھ ریزرو فوجیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تربیتی مراکز میں ہیں۔
روس یوکرین جنگ کے حوالے سے جوہری جنگ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ صدر پوٹن نے اجلاس کے دوران ایٹمی جنگ کے خطرے میں اضافے کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ روس کبھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی نہیں دے گا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس دنیا کے کسی بھی جوہری طاقت کے حامل ملک سے زیادہ تعداد میں اور زیادہ جدید جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے ، لیکن ہم دنیا کو یہ ہتھیار کسی استرے کی طرح لہراتے ہوئے دکھانا نہیں چاہتے۔