ترک صدر رجب طیب اردوان نے منگل کے روز ماسکو میں روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی، جس کا مقصد شام کی لڑائی میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا تھا۔ روس شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتا ہے، جب کہ ترکی چند باغی گروہوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
گفتگو کے بعد اخباری اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دونوں سربراہان نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ شام کے صوبہ ادلب کے معاملے پر تناؤ میں کمی لانے کے لیے دونوں مل کر کام کریں گے۔
اردوان نے روسی حمایت سے ادلب میں باغیوں کے خلاف کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ کارروائی ایسے وقت کی جا رہی ہے جب شام میں فوجی کارروائی سے متعلق ترکی اور امریکہ نے اتفاق کیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پوٹن اس سمجھوتے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سمجھوتے کے تحت شام میں ’بفر زون‘ قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، تاکہ شامی کرد ملیشیا (آئی پی جی) سے ترکی کی سرحد کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
ترکی ’وائی پی جی‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے جو ترکی کے اندر باغیوں سے منسلک بتائی جاتی ہے۔ تاہم، داعش کے دہشت گرد گروپ کے خلاف لڑائی میں ’وائی پی جی‘ امریکہ کا ایک کلیدی اتحادی ہے۔
پیر کے روز اردوان نے دبے لہجے میں امریکہ کو انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر، ترکی شام میں داخل ہوگا؛ تاکہ، بقول ان کے، ’’امن کا علاقہ‘‘ قائم کیا جا سکے۔ اردوان نے یہ بیان تاریخی فوجی فتح کی یاد منانے کی ایک تقریب کے دوران اپنے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
اردوان نے کہا کہ ’’بغیر عملے کی فضائی گاڑیاں‘‘ اور ہیلی کاپٹر علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔ بہت جلد ہماری فوجیں بھی علاقے میں داخل ہوں گی۔ اگر کسی نے ہمیں روکنے کی کوشش کی، تو ہم اپنے پروگرام کے مطابق ہی آگے بڑھیں گے‘‘۔