ترکی نے ان شامیوں کے لیے استنبول سے نکل جانے کی ڈیڈلائن میں ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے جو لڑائی کے نتیجے میں مہاجر بننے کے بعد استنبول میں مقیم ہیں۔ انھیں کہا گیا ہے کہ وہ دیگر صوبوں، خاص طور پر جنوب کی جانب واپس چلے جائیں۔
جنوب وہ علاقہ ہے جہاں سیاسی پناہ کے لیے ان کی پہلی بار رجسٹریشن کی گئی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق، رہائشی کارڈوں کے بغیر پانچ لاکھ سے زائد شامی اس وقت ترکی کے سب سے بڑے شہر میں مقیم ہیں۔ انھیں کسی دوسرے مقام کی جانب منتقل کیا جا سکتا ہے یا پھر لڑائی میں الجھے وطن واپس بھیجے جانے کا خدشہ لاحق ہے۔
اکتوبر 30 کی نئی ڈیڈلائن کے باوجود، مہاجرین اور انسانی حقوق کے گروپوں کو یہ خدشہ ہے کہ انھیں حراست میں لیا جا سکتا ہے اور وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ استنبول میں رہنے کی اجازت نہ ہونے والے شامی 20 اگست تک دیگر صوبوں کی طرف واپس جا سکتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ استنبول میں دس لاکھ سے زیادہ شامی رہتے ہیں، جب کہ شہر میں ان کی تعداد صرف پانچ لاکھ درج ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران حکام نے ہزاروں غیر رجسٹرڈ شامیوں کو حراست میں لیا ہے۔ لیکن، ان شامیوں کو سرکاری طور پر اجازت دی گئی ہے کہ جہاں وہ رجسٹر ہوئے تھے رضاکارانہ طور پر وہاں واپس چلے جائیں۔
لیکن، وہاں پر انھیں روزگار کمانے کے زیادہ مواقع میسر نہیں ہوتے۔ استنبول میں شامی جز وقتی کام کرکے بھی گزارا کر لیتے ہیں۔
نگرانی کرنے والے گروہوں کے مطابق، سرکاری مہلت کے دوران بھی کم رفتاری سے ہی سہی، لیکن انہیں زیر حراست لیا جا رہا ہے، انھیں دیگر مقامات کی جانب بھیجا جا رہا ہے اور ان کی وطن واپسی جاری ہے۔
شام کے بارے میں خبریں نشر کرنے والے ریڈیو اسٹیشن، ’روزانہ‘ نے اس ہفتے خبر دی ہے کہ وہ شامی جن کے پاس ریزیڈنسی کے کارڈ نہیں ہیں انھیں بھی شمال مغربی صوبہ ادلب میں قید رکھا گیا ہے، جہاں حکومتِ شام کی افواج کارروائی میں مصروف ہیں، جو روس کی اتحادی ہیں۔