جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ آئی ایس پی آر نے پہلے پریس ریلیز اور پھر پریس کانفرنس میں عدالتی فیصلے پر تنقید کی۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ سابق آرمی چیف کے خلاف فیصلے میں استعمال کئے گئے الفاظ مذہب، انسانیت، تہذیب اور اقدار کے خلاف ہیں۔ اس بیان کی بار کونسل نے مذمت کی۔
ممتاز قانون داں سلمان اکرم راجہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ادارے حساسیت سے نہیں چلتے۔ نہ ہی فیصلے اداروں کی حساسیت کی بنیاد پر کیے جا سکتے ہیں۔اگر جذبات کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے تو پھر سے نظریہ ضرورت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تمام اداروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان قانون اور آئىن کے مطابق چلے گا اور آئىن توڑنے کو جرم سمجھا جائے گا۔ ورنہ ہر طالع آزما کو یہ دعوت ہوگی کہ وہ جب چاہے آئىن کو پامال کر ےاور پھر حساسیت اور جذبات کا سہارا لے۔
انھوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ جلدبازی میں لکھا ہوا نہیں۔ یہ انتہائى سوچ سمجھ کر لکھا گیا بہترین فیصلہ ہے جس میں دنیا بھر کے بہترین عدالتی فیصلوں سے رہنمائى لی گئى ہے۔
فیصلے کی تعریف کے باوجود سلمان اکرم راجہ نے پیرا 66 کی نشاندہی کی جس میں خصوصی عدالت کے جج نے پرویز مشرف کو پانچ بار پھانسی اور لاش کو تین دن ڈی چوک اسلام آباد میں لٹکانے کی بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ افسوسناک اور قومی بدقسمتی ہے کہ ایک پیرا اتنے اہم فیصلے پر حاوی ہو گیا ہے۔ یہ پیرا آئین و قانون کے مطابق نہیں لیکن اس کے سوا یہ بھاری بھرکم فیصلہ ہے۔ اس میں 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے تمام پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور فوج، دونوں کو جذبات کو قابومیں رکھنا چاہیے۔ پاکستان بار کونسل کو بھی مکالمہ بازی سے احتراز کرنا چاہیے۔فیصلے میں صدر مشرف کے لیے لفظ غداری کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا گیا کہ انہوں نے ملک کے راز کسی کو دیے ہیں بلکہ اسے آئین و قانون کی پامالی سے جوڑا گیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلے پر تنقید کو برداشت کرنا چاہیے کیونکہ بالآخر یہ فیصلہ سپریم کورٹ جائے گا جہاں اس کی صحت کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کیس کو لٹکایا تو جا سکتا تھا لیکن اس کا فیصلہ یہی آنا تھا۔
حکومت کی طرف سے اپیل کے ارادے پر انھوں نے کہا کہ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اپیل میں وزن نہیں ہے۔ اس کے تکنیکی معاملات پر مزید بحث ہو سکتی ہے جن میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم کو سننے کے اور مواقع دیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔