بیرونی طاقتیں عراق میں مداخلت نہ کریں، سعودی عرب

سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ سعود الفیصل

سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ عراق اس وقت ایک مکمل خانہ جنگی سے دوچار ہے جس میں بیرونی مداخلت پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردے گی۔
سعودی عرب نے خبردار کیا ہے کہ غیر ملکی طاقتوں کو عراق میں جاری بحران میں مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔

بدھ کو جدہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مملکت کے وزیرِ خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ عراق اس وقت ایک مکمل خانہ جنگی سے دوچار ہے جس میں بیرونی مداخلت پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کے اس انتباہ کا مخاطب ایران ہے جس کی حکومت نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ اگر عراق میں موجود شیعہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو خطرہ لاحق ہوا تو ایران انہیں بچانے کے لیے مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔

اس سے قبل عراق کے شیعہ وزیرِاعظم نوری المالکی نے – جو خطے میں ایران کے اہم اتحادی ہیں - نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ شدت پسند تنظیم 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام (داعش)' کے جنگجووں کی پشت پناہی کر رہا ہے جنہوں نے گزشتہ ہفتوں کے دوران عراق کے شمال میں کئی سنی اکثریتی شہروں اور قصبوں پر قبضہ کرلیا ہے۔

بدھ کو جدہ میں اپنے خطاب کے دوران سعودی وزیرِ خارجہ نے "تشدد کا سامنا کرنے والی قوموں" پر زور دیا کہ وہ اپنے لوگوں کے جائز مطالبات کو پورا کریں اور کسی بیرونی مداخلت یا ایجنڈے کو خاطر میں لائے بغیر قومی مفاہمت کے حصول کے لیے اقدامات کریں۔

شہزادہ سعود الفیصل کا کہنا تھا کہ شام میں گزشتہ تین سال سے جاری خانہ جنگی نے عراق کی داخلی صورتِ حال کو ابتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز پر سعودی حکومت نے عراق میں جاری بحران کا ذمہ دار وزیرِاعظم نوری المالکی کو ٹہرایا تھا جن کی شیعہ حکومت، سعودی عرب کے مطابق، گزشتہ کئی برسوں سے ملک کی اقلیتی سنی آبادی کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی پالیسی پر کاربند ہے۔

اس کے برعکس عراقی وزیرِ اعظم اور کئی ایرانی حکام گزشتہ مہینوں کے دوران الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ شام اور عراق میں سرگرم 'داعش' اور دیگر سنی شدت پسندوں کو خلیجی ملکوں کی حکومتیں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

عراق کی صورتِ حال پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان شدت اختیار کرتی اس زبانی جنگ سے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان روایتی کشیدگی دوبارہ زور پکڑ رہی ہے جس میں کمی کے لیے طرفین کی جانب سے حالیہ مہینوں کے دوران سفارتی کوششیں دیکھنے میں آئی تھیں۔

خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سنی اور شیعہ کی تقسیم خاصی پرانی ہے جہاں سنی ملکوں اور اقلیتوں کو سعودی عرب جب کہ شیعہ حکومتوں اور اقلیتوں کو ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہوتی رہی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی "تشویش"


دریں اثنا خطے میں سعودی عرب کے قریب ترین اتحادی متحدہ عرب امارات نے عراقی حکومت کی "فرقہ واریت پر مبنی" پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے بغداد میں تعینات اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے وطن واپس طلب کرلیا ہے۔

امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزارتِ خارجہ نے بدھ کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں عراق میں کسی بیرونی طاقت کی مداخلت کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ملک میں قومی مفاہمتی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات عراقی حکومت کی "فرقہ وارانہ" پالیسیوں پر سخت تشویش میں مبتلا ہے جس کے نتیجے میں اندرونِ ملک سیاسی کیشدگی میں مزید اضافہ اور سکیورٹی کی صورتِ حال ابتر ہورہی ہے۔