سعودی عرب کی حکومت نے منگل کے روز اعلان کیا کہ وہ عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دے رہی ہے ۔
قدامت پسند بادشاہت کے ملک میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی کی اس دیرینہ پالیسی کو دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق دبانے کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
پالیسی میں تبدیلی کا یہ اعلان سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن اور واشنگٹن کی ایک میڈیا تقریب میں ایک ساتھ کیا گیا۔
اس کا اطلاق اگلے سال جون سے ہو گا۔
حالیہ عرصے میں کئی سعودی خواتین کے پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کار چلانے کی کوشش تھی جنہیں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ سوشل میڈیا نے اس پکڑ دھکڑ کے ان واقعات کو سامنے لانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سعودی عرب میں، جہاں شرعی قوانین نافذ ہیں، عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی کے حق میں سعودی حکام اور دینی راہنما برسوں سے دلائل دیتے آ رہے ہیں۔
تاہم اس پابندی کا تعلق بنیادی طور پر سعودی معاشرے اور ثفافت سے ہے جہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت کے سڑک پر گاڑی چلانے سے حادثے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ وہ قدرتی طور پر گاڑی کو کنٹرول نہیں کر سکتی ۔ ایک سعودی مذہبی راہنما نے پابندی کے حق میں کسی ثبوت کے بغیر یہ عجیب و غریب دلیل بھی دی تھی کہ ڈرائیونگ کرنے سے عورت بانجھ ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں کٹر مذہبی سوچ رکھنے والے عورتوں کو ڈرائیونگ کے خلاف ہیں۔ گذشتہ عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے دوران دور افتادہ سرحدی علاقوں میں عورتوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انتخابی اصلاحات کی تیاری کے موقع پر بعض مذہبی گروپوں نے عورتوں کے ووٹ نہ ڈالے جانے پر انتخاب کالعدم قرار دینے کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔
لیکن یہ معاشرے کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہے۔ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ اعتدال پسند اور عورتوں کے حقوق کا حامی ہے۔ پاکستان میں خواتین کو ڈرائیونگ کی آزادی ہے، وہ نہ صرف اپنی کاریں چلاتی ہیں بلکہ کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور کے طور پر بھی سامنے آرہی ہیں ۔ کئی بڑے شہروں میں خواتین کی کیپ سروس چل رہی ہیں جس کی ڈرائیور بھی خواتین ہیں۔
مشرق وسطی ٰ میں حالیہ برسوں میں تبدیلی کی جو لہر چلی ہے، اس نے سعودی معاشرے کو بھی متاثر کیا ہے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ سعودی حکومت نے عورتوں کو ووٹ کا حق اور مقامی حکومتوں میں نمائندگی دی تھی۔ موجودہ سعودی بادشاہ اور نوجوان ولی عہد پرنس محمد بن سلمان، جن کی عمر 32 سال ہے، سعودی معاشرے اور سعودی معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی دنیا میں سعودی تصویر کو بہتر بنانے اور معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم کرنے کے خواہاں ہیں ۔ کیونکہ کئی برسوں سے تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں جس سے سعودی حکومت کو معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگرچہ سعودی حکومت نے اگلے سال جون سے ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا اعلان کر دیا ہے لیکن فی الحال ایسا کوئی ڈھانچہ موجود ہے جو عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس کے حصول میں مدد کے لیے گاڑی چلانا سکھاسکے۔
اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ سعودی معاشرے میں عورت کو اپنے محرم کے سوا گھر سے باہر نکلنے اور غیر مرد کے ساتھ رابطے میں آنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی پولیس کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی کہ وہ خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کے لیے خواتین انسٹرکٹرز کی ایک کھیپ تیار کرے۔
قدامت پسند سعودیوں کے برعکس اس ملک کی جوان نسل اور پروفیشنلز حکومت کے اس نئے اعلان کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو مزید حقوق دینے اور انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں مردوں کے مساوی لانے کی ضرورت ہے۔