|
دبئی — سعودی عرب کے ایک سابق عہدے دار سعد الجبری نے الزام لگایا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یمن میں حوثیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والے شاہی فرمان پر اپنے والد کے جعلی دستخط کیے تھے۔
سابق عہدے دار کی جانب سے یہ الزامات پیر کو بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں لگائے تھے جن کا انہوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ سعودی عرب نے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
سعد الجبری نے اس معاملے پر بعد ازاں خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو کی اور اپنے الزامات کو دہرایا۔
سعودی عرب اور سعد الجبری کے درمیان طویل عرصے سے تنازع چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب الجبری کو 'ایک بدنام سابق سرکاری اہلکار' قرار دیتا ہے۔
سابق میجر جنرل اور انٹیلی جینس اہلکار رہنے والے الجبری اس وقت کینیڈا میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے دو بچے اس وقت سعودی عرب میں قید میں ہیں۔ الجبری اس کیس کو سعودی حکومت کی جانب سے انہیں واپس وطن لانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
سابق سعودی عہدے دار کا الزام ہے کہ محمد بن سلمان انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں۔
سعد الجبری نے 'اے پی' کو بتایا کہ وہ کوئی ملک سے منحرف ہونے والوں میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے خود کو اس صورتِ حال میں ڈالا ہے۔ ان کے بقول وہ ایک اعلیٰ سعودی اہلکار تھے جس نے خود کو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ ایک باپ ہیں جو اپنے بچوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
ان کا یہ الزام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محمد بن سلمان سعودی عرب کے ڈی فیکٹو لیڈر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اکثر اپنے والد 88 سالہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان کی جگہ رہنماؤں سے ملاقات کرتے ہیں۔
الجبری نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی وزارتِ داخلہ سے منسلک ایک "معتبر، قابلِ اعتماد" اہلکار نے انہیں تصدیق کی کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے جنگ کے اعلان کے فرمان پر اپنے والد کی جگہ دستخط کیے۔ محمد بن سلمان اس وقت وزیرِ دفاع تھے۔
بعد ازاں سعد الجبری نے اے پی کو بتایا کہ وہ اس وقت کی اوبامہ انتظامیہ میں سعودی عرب کے لیے امریکی ہم منصوبوں کے ساتھ ایک معاہدہ کر چکے تھے جس کے تحت حوثیوں کے خطرات کو ختم کرنے، ڈیٹرنس قائم کرنے اور زمینی مداخلت کے بغیر سیاسی عمل پر مجبور کرنے کے لیے فضائی بمباری جیسے نکات شامل تھے۔
ان کے بقول ان کے سابق باس اور اس وقت کے سعودی وزیرِ داخلہ شہزادہ محمد بن نائف نے اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی تھی۔
SEE ALSO: سعودی عرب کے شاہ سلمان نے کابینہ کو اپنے یا ولی عہد کے بغیر اجلاس کی اجازت دے دیالبتہ سعد الجبری نے دعویٰ کیا کہ محمد بن سلمان نے اس اجلاس میں "واضح ناراضی" کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ حوثیوں کو دو ماہ میں زمینی کارروائی میں شکست دے سکتے ہیں۔
انہوں نے اے پی کو بتایا کہ "حیران کن طور پر بعد ازاں بادشاہ کے علم میں لائے بغیر اور ان کے جعلی دستخط کے ساتھ ایک شاہی حکم جاری کیا گیا جس میں متفقہ منصوبے کو ختم کرتے ہوئے زمینی آپریشن کی اجازت دی گئی۔"
امریکی محکمۂ خارجہ نے الجبری کے دعوؤں پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔
سعودی ولی عہد نے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ اس عوامی وعدے کے ساتھ شروع کی تھی کہ لڑائی جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ جنگ تقریباً ایک دہائی سے جاری ہے۔ جنگ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں اور اس سے ایک بدترین انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔
شہزادہ محمد بن نائف شاہ سلمان کے لیے ولی عہد کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ 11 ستمبر 2001 کے بعد سعودی عرب میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں امریکہ کے لیے قابلِ اعتماد رہنما تھے۔
انہیں شاہ سلمان نے 2017 میں ولی عہد سے ہٹا دیا تھا اور ان کی جگہ محمد بن سلمان نے لے لی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ محمد بن نائف کو نظر بند کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: سعودی عرب:سفارت کاروں کے لیے شراب کا پہلا اسٹور کھولنے کی تیاریسعد الجبری کی جانب سے شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف امریکہ کی وفاقی عدالت میں دائر مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ ولی عہد نے انہیں بیرونِ ملک فرار ہونے کے بعد قتل کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ "انہوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک مجھے مردہ نہ دیکھ لیں۔" اور " مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔"
انہوں نے اے پی کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ سعودی ولی عہد اب بھی انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں جب کہ ان کے بچے سارہ اور عمر اب بھی ریاست کی قید میں ہیں۔
ان کے بقول خاموش رہنے سے معاملات مزید خراب ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان کے پاس اپنے بچوں اور ملک کی بھلائی کے لیے بولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے "اس غیر ضروری جھگڑے کا آغاز کیا اور اسے فوری طور پر ختم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔"