|
ویب ڈیسک __سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ اور لبنان میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کو ’برادر ملک ایران‘ پر حملے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
محمد بن سلمان نے دارالحکومت ریاض میں پیر کو عرب لیگ اور اسلام ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے مشترکہ اجلاس سے افتتاحی خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عالمی امن برقرار رکھنے کے لیے ’’فلسطین اور لبنان میں ہمارے بھائیوں پر اسرائیلی حملے روکے اور یقینی بنائے کہ اسرائیل ہمارے برادر اسلامی جمہوریہ ایران کی سالمیت کا احترام کرے اور اس کی سرحدوں میں حملوں سے باز رہے۔‘‘
پیر کو ریاض میں غزہ اور لبنان میں جاری جنگ سے متعلق عرب اور مسلم ممالک کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے گزشتہ ماہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دینے کے لیے یہ اجلاس طلب کیا تھا۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر ایجنسی 'ایس پی اے' کے مطابق ’’اجلاس کے شرکا فلسطینی علاقوں اور لبنان پر اسرائیلی جارحیت اور خطے میں حالیہ تبدیلیوں پر تبادلۂ خیال کریں گے۔‘‘
ایک سال قبل بھی عرب لیگ اور او آئی سی کا ایسا ہی ایک مشترکہ اجلاس منعقدہ ہوا تھا جس میں غزہ پر اسرائیلی فورسز کے حملوں کی مذمت کی گئی تھی۔
اسرائیل حماس جنگ کا آغاز حماس کے سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور حماس نے 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق جنگ میں 42 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
سعودی ولی عہد نے مزید کہا کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطین اقوامِ متحدہ میں نمائندگی کی مکمل رکنیت کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ انہوں نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی سطح پر کوششیں تیز کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
SEE ALSO: سعودی عرب کے اعلیٰ فوجی جنرل کا دورۂ ایران، دفاعی معاملات پر تبادلۂ خیالسعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں عرب ممالک کے علاوہ متحدہ عرب امارات، اردن، ترکیہ، شام، مصر، پاکستان اور ایران سمیت عرب ریاستوں اور دیگر مسلم ممالک کے سربراہانِ مملکت اور رہنما بھی شریک ہوئے ہیں۔
اجلاس سے قبل اتوار کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا۔
ٹیلیفونک گفتگو میں ایرانی صدر نے سعودی ولی عہد کو آگاہ کیا تھا کہ بعض ’انتظامی مصروفیات‘ کی وجہ سے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہو پائیں گے۔ اجلاس میں ایران کی نمائندگی نائب صدر رضا عارف نے کی۔
سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے غزہ اور لبنان میں جاری اسرائیل کی کارروائیوں اور خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا اور صدر پزشکیان نے اس سلسلے میں سعودی عرب کی کوششوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔
اس سے قبل اتوار کو سعودی عرب کے اعلیٰ فوجی افسر چیف آف اسٹاف جنرل فیاض بن حامد الرویلی نے تہران کا دورہ کیا اور اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی۔
SEE ALSO: عرب رہنماؤں کو ٹرمپ سے کیا توقعات ہیں؟ستمبر میں اسرائیل کے حملے میں لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر میزائل حملے کیے تھے۔ بعدازاں جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل نے اکتوبر کے آخر میں ایران میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔
ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے اور مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مبصرین خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امریکہ کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے تناظر میں روایتی حریف سمجھے جانے والے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتے روابط کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات لگ بھگ سات برس معطل رہنے کے بعد چین کی ثالثی سے مارچ 2023 میں ایک بار پھر بحال ہوئے تھے۔
اس خبر کی زیادہ تر معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔