|
سعودی عرب نے بدھ کو فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دباؤ ڈالنے والے ایک نئے "بین الاقوامی اتحاد" کے پہلے اجلاس کی میزبانی کی۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر منظر عام پر آنے والے، بین الاقوامی اتحاد" کے اس اجلاس میں مشرق وسطیٰ، یورپ اور اس سے باہر کے ملکوں کے نمائندے اکٹھے ہوئے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ریاض میں دو روزہ اجلاس میں لگ بھگ 90 " ملک اور بین الاقوامی تنظیمیں" حصہ لے رہی ہیں۔
انہوں نے انسانی ہمدردی کی صورتحال کو "تباہ کن" قرار دیتے ہوئے اور شمالی غزہ کی "مکمل ناکہ بندی" کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے مقصد کے ساتھ نسل کشی ہو رہی ہے، جسے سعودی عرب مسترد کرتا ہے۔"
SEE ALSO: سعودی عرب کا فلسطینی ریاست کے قیام پر دباؤ ڈالنے کے لئےبین الاقوامی اتحا د کا اعلانسفارت کاروں نے بتایا کہ یورپی یونین کی نمائندگی مشرق وسطیٰ کے قیام امن سے متعلق خصوصی نمائندہ سوین کوپ مینز کریں گے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے فوجی حمایتی امریکہ نے محکمہ خارجہ کے فلسطینی امور کے لیےخصوصی نمائندے ہادی عمر کو بھیجا ہے
سفارت کاروں نے بتایا کہ ریاض اجلاس میں توجہ انسانی ہمدردی کی امداد کی رسائی، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے نبرد آزما اقوام متحدہ کی ایجنسی کی اور دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے اقدامات پر مرکوز کی جائے گی۔
SEE ALSO: وہ جنگ جس میں اسرائیل عرب ممالک کو شکست دے کر خطے کی بڑی طاقت بناغزہ کی جنگ نے "دو ریاستی حل" کی گفتگو کو بحال کیا ہے جس میں اسرائیل اور فلسطینی ریاستیں شانہ بشانہ امن کے ساتھ رہیں گی، حالانکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مقصد پہلے سے کہیں زیادہ ناقابل حصول لگتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی سخت موقف رکھنے والی حکومت کسی فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔