’خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ختم کی گئی تو بے ہودگی، ہم جنس پرستی، جسم فروشی اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا‘: سعودی شیخ
واشنگٹن —
سعودی عرب میں ایک جانب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دیے جانے پر زور و شور سے مہم جاری ہے، تو دوسری جانب ایک مذہبی عالم نے کہا ہے کہ ڈرائیونگ کرنے والی خواتین کو بچوں کی پیدائش کے وقت طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سعودی ویب سائٹ ’سبق‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں شیخ صالح اللوہائے نے کہا ہے کہ، اگر کوئی خاتون باقاعدگی سے گاڑی چلاتی ہے تو اس کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔۔ خاص طور پر بچوں کی پیدائش کے وقت انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شیخ صالح کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم ’وومن ٹو ڈرائیو‘ کے کارکنوں کی جانب سے مہم میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی آرہی ہے۔
ادھر، یہ تنظیم خواتین پر زور دے رہی ہے کہ وہ خواتین کے ڈرائیونگ چلانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 26 اکتوبر کو گاڑی چلائیں۔
مؤقر اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق، سعودی عرب میں خواتین کے کار چلانے پر گذشتہ 20 برس سے پابندی عائد ہے۔ تاہم، حالیہ مہینوں کے دوران اس پابندی کے خلاف سخت احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
اخبار نے اپنی خبر میں سنہ 2011 میں مذہبی شوریٰ کی جاری کردہ ایک ’سائنسی‘ رپورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے، جِس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ہٹالی گئی، تو ریاست میں بے ہودگی اور ہم جنسی پرستی کی وبا پھیل جائے گی، طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جائے گا اور جسم فروشی عام ہوجائے گی۔
دبئی سے شائع ہونے والی ایک بزنس میگزین، ’عربین بزنس‘ کے مطابق، سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کو کار چلانے کی اجازت نہیں۔ خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی سنہ 1932 میں ریاست کے قیام کے وقت لگائی گئی تھی۔
سعودی ویب سائٹ ’سبق‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں شیخ صالح اللوہائے نے کہا ہے کہ، اگر کوئی خاتون باقاعدگی سے گاڑی چلاتی ہے تو اس کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔۔ خاص طور پر بچوں کی پیدائش کے وقت انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شیخ صالح کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم ’وومن ٹو ڈرائیو‘ کے کارکنوں کی جانب سے مہم میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی آرہی ہے۔
ادھر، یہ تنظیم خواتین پر زور دے رہی ہے کہ وہ خواتین کے ڈرائیونگ چلانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 26 اکتوبر کو گاڑی چلائیں۔
مؤقر اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق، سعودی عرب میں خواتین کے کار چلانے پر گذشتہ 20 برس سے پابندی عائد ہے۔ تاہم، حالیہ مہینوں کے دوران اس پابندی کے خلاف سخت احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
اخبار نے اپنی خبر میں سنہ 2011 میں مذہبی شوریٰ کی جاری کردہ ایک ’سائنسی‘ رپورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے، جِس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ہٹالی گئی، تو ریاست میں بے ہودگی اور ہم جنسی پرستی کی وبا پھیل جائے گی، طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جائے گا اور جسم فروشی عام ہوجائے گی۔
دبئی سے شائع ہونے والی ایک بزنس میگزین، ’عربین بزنس‘ کے مطابق، سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کو کار چلانے کی اجازت نہیں۔ خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی سنہ 1932 میں ریاست کے قیام کے وقت لگائی گئی تھی۔