امریکہ کے محکمۂ انصاف کے خصوصی وکیل جیک اسمتھ نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ 2020 میں صدارتی الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کی سازش کے الزام میں عدالتی کارروائی سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے استثنا کے معاملے پر جلد از جلد فیصلہ کرے۔ تاکہ اس کیس کو شیڈول کے مطابق آگے بڑھایا جا سکے۔
امریکہ کی سب سے اعلیٰ عدالت میں جیک اسمتھ نے پیر کو دائر درخواست میں کہا کہ "اس مقدمے نے ہماری جمہوریت کے مرکز میں ایک بنیادی سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا ایک سابق صدر کو اپنی صدارت کے دوران کیے گئے جرائم پر وفاقی عدالتی کارروائی سے مکمل استثنا حاصل ہے؟"
جیک اسمتھ نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ تیز رفتاری سے اس معاملے کا فیصلہ کرے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جیک اسمتھ کا اپنی درخواست کے حوالے سے کہنا تھا کہ امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی درخواست ہے اور یہ مقدمہ بھی غیر معمولی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی عوامی مفاد کا معاملہ ہے جس میں جواب دہ استثنا کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس معاملے کو جلد از جلد حل ہونا چاہیے اور اگر جواب دہ کو استثنا حاصل نہیں تو اس پر عائد الزام پر شفاف اور تیز عدالتی کارروائی ہو سکے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ وہ جیک اسمتھ کی درخواست پر غور کر سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا سے کہا ہے کہ وہ محکمۂ انصاف کے خصوصی وکیل کی درخواست پر اپنا مؤقف 20 دسمبر تک پیش کریں۔
یہ بھی جانیے
ٹرمپ دوڑ میں شامل نہ ہوتے تو شاید دوبارہ صدارتی الیکشن نہ لڑتا: صدر بائیڈن ٹرمپ کی ری پبلکن صدارتی مباحثے میں عدم شرکت، آٹو سیکٹر مزدوروں سے خطابکیپٹل ہل کی عمارت پر حملے کی منصوبہ بندی، 'پراوڈ بوائز' کے لیڈر کو 22 سال قید کی سزا بائیڈن اور ٹرمپ کے بارے میں رائے عامہ کے جائزے کیا کہتے ہیں؟امریکہ کی سپریم کورٹ نو ججوں پر مشتمل ہے جس میں چھ قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے۔ ان میں سے تین جج سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ملک کی اعلیٰ عدالت میں تعینات ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ 2017 سے 2021 کے درمیان امریکہ کے ری پبلکن صدر رہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت آئندہ برس 24 مارچ کو شروع ہونا ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا مستقل یہ زور دیتے رہے ہیں کہ اس مقدمے کی سماعت نومبر 2024 میں امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے وکلا یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ سابق صدر کے دورِ صدارت میں کیے گئے ان کے فیصلوں پر انہیں مکمل استثنا بھی حاصل ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے والے منتظمین نے محکمۂ انصاف کے خصوصی وکیل کی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کیس میں اس قدر جلد بازی کی ضرورت نہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کی آئندہ ملاقات پانچ جنوری کو متوقع ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں جیک اسمتھ کی درخواست کا معاملہ زیرِ غور آئے گا یا نہیں۔
اس معاملے پر امریکہ کی ڈسٹرکٹ جج تانیہ چٹکن نے رواں ماہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ سابق صدر کو وفاقی عدالتی کارروائی سے مکمل استثنا حاصل ہے۔
جج تانیہ چٹکن کی تعیناتی سابق ڈیموکریٹ صدر براک اوباما کے دور میں ہوئی تھی۔ تانیہ چٹکن نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ صدر کے عہدے کو ہمیشہ کے لیے اپنی خواہش کے مطابق لامحدود آزادی حاصل نہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے ڈسٹرکٹ جج تانیہ چٹکن کے حکم کے خلاف وفاقی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
SEE ALSO: بہت سے امریکی جمہوریت کی صورت حال اور انتخابی طریقہ کار سے نالاں: جائزہامریکہ کے محکمۂ انصاف کے خصوصی وکیل نے پیر کو، جو درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے اس میں، انہوں نے مزید کہا ہے کہ امریکی آئین میں ایک بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔
یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری کو اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا جس کے بعد ان کے حامیوں نے ہجوم کی شکل میں کیپٹل ہل پر چڑھائی کر دی تھی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا تھا جب کانگریس میں صدارتی انتخابات 2020 میں جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔
امریکی محکمۂ انصاف نے ٹرمپ پر فردِ جرم میں 2020 کے صدارتی الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کے لیے دھوکہ دہی سے کام لینے اور سرکاری امور میں مداخلت کی سازش کے الزاما ت لگائے ہیں۔
محکمۂ انصاف کی طرف سے عائد کردہ فردِ جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے موجودہ صدر جو بائیڈن سے صدارتی الیکشن میں اپنی شکست کو تبدیل کرنے کی کوشش میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے اور جھوٹ پھیلانے کی سازش کی۔
ٹرمپ پر چار الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں سرکاری امور میں مداخلت، سرکاری کام کو روکنے کی سازش، امریکہ کو دھوکہ دینے اور دوسروں کو ان کی آئینی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنے کی سازش شامل ہیں۔
SEE ALSO: امریکی انتخابات میں تاریخ رقم کرنے والے امیدوارامریکی قانون کے مطابق سرکاری عمل کی راہ میں رکاوٹ کی سزا 20 سال قید ہے۔
واضح رہے کہ چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر چڑھائی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروہوں 'اوتھ کیپرز' اور 'پراؤڈ بوائز' کے اراکین سمیت ایک ہزار افراد پر الزامات لگائے گئے جن میں 100 افراد کو یا تو سزا سنادی گئی ہے اور یا انہوں نے اقبالِ جرم کیا۔
اس خبر میں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔