چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے سے متعلق اپنا فیصلہ واپس نہیں لے گی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ایک ہی وقت انتخابات سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
جمعرات کو جاری سماعت کے لیے عدالت نے سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو طلب کیا تھا۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے نمائندے عدالت میں شریک ہوئے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی نے عدالتی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ عدالتی فیصلے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔ فیصلہ ہٹانے کا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے ہیں۔
SEE ALSO: الیکشن کی تاریخ کا معاملہ: پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر حکمراں اتحاد میں 'ڈیڈ لاک'واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم عدالتی حکم کے باوجود الیکشن کے انعقاد کی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی۔ آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے بارے میں واضح ہے۔ کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور آئین کا تحفظ کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تلخی کے بجائے آگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں۔ سیاسی قوتوں کو مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔ آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں۔
ان کے بقول مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کردیں۔ حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مذاکرت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہوسکتے۔ عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی۔ مذاکرات تو کئی ماہ اور چل سکتے ہیں۔ ان کے بقول اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت اپنی تجاویز دے ہم جائزہ لیں گے۔ عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔
عدالت میں سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کو 'ڈیبیٹ کلب' نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں، ماریں بھی کھائی ہیں۔ آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔
SEE ALSO: کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے ازخود نوٹس کا استعمال نہیں کیا جا سکتا: جسٹس فائز عیسیٰسماعت میں پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے۔ ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے۔
انہوں نے کہا کہ آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں۔ آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ یقین دہانی کراتے ہیں کہ طول دینے کی کوشش نہیں کریں گے۔
عدالت میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ سیاست دان مذاکرات کا مخالف نہیں ہوتا۔ لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہئیں۔ ایک قابلِ احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔
ان کے بقول یہ نا ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکٹھی ہوجائے۔ عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔
سماعت میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق بھی پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے۔ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے۔ آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا اپنا گھر خود سیاسی رہنماؤں نے ٹھیک کرنا ہے۔ نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گئے۔ ان کے بقول پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں بنا۔ کسی جنرل نے اسے نہیں بنایا۔ آمریت نہ ہوتی تو یہ ملک نہ ڈوبتا۔
سراج الحق نے کہا کہ ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے ساتھ۔ ہمارا مؤقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے تو کبھی دوسری جماعت کو۔ سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے وزیرِاعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کی۔ مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ مگر کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے۔ الیکشن 90 دن سے 105 دن پر آگئے۔ اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 بھی ہوسکتے ہیں۔
امیرِ جماعت اسلامی نے کہا کہ مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیرسیاسی نہیں ہوئے۔ ہمیں نگراں حکومتوں نے ڈسا ہے تو منتخب حکومت کیسے شفاف انتخابات کرا سکتی ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا۔ عدلیہ یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے۔
اس دوران وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے۔ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا۔ پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے۔ پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر کمیشن شیڈول تبدیل کرسکتا ہے۔ کمیشن رجوع کرے عدالت مؤقف سن لے گی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے۔ آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی۔ اس آرٹیکل کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے، اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جبھی عدالت نے حکم جاری کیا۔ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے۔
SEE ALSO: پنجاب الیکشن: سیاسی اتفاقِ رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے، چیف جسٹسانہوں نے ریمارکس دیے کہ سراج الحق، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے کوشش کی ہے۔ بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی۔ ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی۔ یاد رکھنا چاہیے عدالتی فیصلہ موجود ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔ آج کسی سیاسی رہنما کے فیصلے کو غلط نہیں کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہوسکتی۔ دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ گزارش ہے کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں بلکہ آج ہی بیٹھیں اور پیش رفت سے آگاہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ "جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں۔ عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے۔ توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔"
عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات کی شام چار بجے تک ملتوی کردی ہے۔