سپریم کورٹ کو آئین کے تحفظ اور بنیادی حقوق پر فیصلے کا اختیار ہے: چیف جسٹس

PAKISTAN-POLITICS/JUDICIARY

پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت کو بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اگر کوئی عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا جاتا تو یہ حتمی ہوتا ہے۔ عدالتیں انتظامی احکامات جاری نہیں کر سکتیں۔

لاہور میں دستورِ پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ "عدالتی فیصلے آئین کے مطابق ہونے چاہیئں، ان میں ہی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔"

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آپ آئین کی عزت کرتے ہیں تو سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ آئین کا تحفظ ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جاری بات چیت پر انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ ان کو احساس ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری اور تحفظ کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت نے مذاکرات شروع کیے۔ وہ سیاسی جماعتوں کی حمایت کے لیے موجود ہیں۔ دوسری صورت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ انہیں اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق پاکستان کے رہنما، ادارے اور عوام آئین کی پاسداری کے لیے پر عزم ہیں۔

سابق چیف جسٹس کارنیلیئس کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو 17 سال دیے۔ جسٹس کارنیلیئس نے کہا تھا کہ ایگزیکٹو افسران بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ تین دہائیوں کے دوران انتہا پسندی کے باعث بے شمار جانیں گئیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

‘پارلیمان کی قانون سازی کا حق تسلیم نہیں کرنا تو الیکشن کا مذاق بھی ختم کریں’

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے چار اپریل کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے 10 اپریل تک وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

لیکن حکمراں اتحاد نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کر دیا تھا۔ وفاقی حکومت نے کہا تھا کہ اُنہیں سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے پر تحفظات ہیں۔

حکمراں اتحاد کا مؤقف تھا کہ الیکشن کے حوالے سے فیصلہ سپریم کورٹ کے اقلیتی بینچ نے سنایا حالاں کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے چار، تین کی اکثریت سے الیکشن التوا سے متعلق درخواست مسترد کر دی تھی۔

بعدازاں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہو گیا تھا جس پر عدالت نے کہا تھا کہ اگر فریقین کسی تاریخ پر متفق ہو جاتے ہیں تو عدالت بھی 14 مئی کو انتخابات کرانے کے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر سکتی ہے۔