سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے عدالتی اصلاحات ایکٹ کے خلاف سماعت کےلیے فل کورٹ کی درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ 'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' یا عدالتی اصلاحات ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
پیر کو سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لیگ ن نے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کی سمجھ میں آ گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا۔ اور نو رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔
'پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جلد مل جائے گا'
اعلیٰ عدالت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکمِ ثانی عمل درآمد روک رکھا ہے۔ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
پیر کو سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل میں جو معاملات طے کیے گئے ہیں وہ انتظامی نوعیت کے ہیں جن میں بینچوں کی تشکیل اور وکیل کی تبدیلی کا حق شامل ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں پارلیمان اور سپریم کورٹ آمنے سامنے؛ 'ٹکراؤ سے نقصان جمہوریت کو پہنچے گا'اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے اور اس میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتا ہے۔ اس لیے عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) نے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں۔
اس موقع پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1992 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی جس پر جسٹس نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا مسلم لیگ (ن) کو موجودہ بینچ پر اعتراض ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے وکیل کا کہنا تھا کہ بالکل، غیر معمولی مقدمات میں بھی فل کورٹ تشکیل دی جا چکی ہے۔
جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ بھی غیر معمولی نوعیت کا مقدمہ ہے۔
SEE ALSO: سپریم کورٹ کو آئین کے تحفظ اور بنیادی حقوق پر فیصلے کا اختیار ہے: چیف جسٹسمسلم لیگ (ن) کی جانب سے بینچ پر اعتراض پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تعین کرے کون کونسے مقدمات کونسا بینچ سنے گا۔ پنڈورا باکس کھولیں گے تو ہر مقدمے میں فل کورٹ کی درخواستیں آ جائیں گی۔
ایک موقع پر جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے جو قانون پارلیمان نے بنایا ہے اس میں پانچ رکنی بینچ کی بات کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) فل کورٹ کی استدعا کیسے کر سکتی ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات آتے ہیں۔ سائلین کے اعتراضات پر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔ سائلین عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ(ن) کے وکلا فل کورٹ بنانے کے حوالے سے دلائل دیتے رہے اور بینچ میں موجود بیشتر ججز اپنے ریمارکس کے ذریعے اس کی مخالفت کرتے رہے۔
اس دوران کئی بار جج صاحبان کی طرف سے اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ(ن) کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کو سخت جملے بھی کہے گئے۔
ججز نے اٹارنی جنرل اور بیرسٹر صلاح الدین کو کہا کہ آپ سوئپنگ سٹیٹمنٹ دے رہے ہیں۔ کل کو آپ ہر کیس میں فل کورٹ مانگیں گے۔ اگر لاہور ہائیکورٹ کا فل کورٹ مانگا تو 60ججز جمع ہونگے؟، سندھ میں 40 ججز کا فل کورٹ بنے گا ۔
ان سخت سوالات پر اٹارنی جنرل اور بیرسٹرصلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ ایسا صرف غیرمعمولی کیسز میں مانگا جاتا ہے جس میں آئینی معاملات ہوں اور یہ غیرمعمولی معاملہ ہے۔
کمرہ عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کے فواد چوہدری موجود تھے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندے موجود نہ تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہے۔
بعد ازاں بینچ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمان اور قائمہہ کمیٹی کی کاروواٸی کا ریکارڈ منگل تک فراہم کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد اس کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتی اصلاحات بل پر جاری حکم امتناع حتمی فیصلے تک برقرار رہے گا۔