تنقید کو ویلکم کہتے ہیں؛ چیف جسٹس کا صحافیوں کے خلاف نوٹسز واپس لینے کا حکم

فائل فوٹو

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کے جاری کردہ نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا ہے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے دائر مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر کئی سینئر کورٹ رپورٹرز کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آزادیٔ صحافت آئین میں ہے۔ کسی بھی صحافی یا عام عوام کو عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے۔ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ "سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں، اگر آپ یہ سمجھ رہے کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ نقصان کر رہے ہیں۔"

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گزشتہ ہفتے ججز پر تنقید کے معاملے پر مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو تحقیقات کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔ جن صحافیوں کو نوٹس بھیجے گئے ان میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی بیٹ کور کرنے والے صحافی بھی شامل تھے۔

SEE ALSO: ججز کے خلاف مہم پر صحافی بھی طلب: ' نوٹس میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ کس کی تضحیک ہوئی ہے'

بینچ میں شامل رکن جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اگر آزادیٔ اظہار سے متعلق آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو انسانی وقار کے تحفظ سے معتلق آرٹیکل 14 کا بھی کچھ خیال کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے اور سوشل میڈیا تھمبنیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گالم گلوچ غلط ہے لیکن تنقید پر ممانعت نہیں، اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

SEE ALSO: آرمی چیف کا یوتھ کنونشن سے خطاب؛ 'فوج نوجوانوں تک اپنی بات پہنچانا چاہ رہی ہے'

کمرۂ عدالت میں موجود کورٹ رپورٹر عبدالقیوم صدیقی نے روسٹرم پر آکر کہا کہ وفاقی حکومت سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جے آئی ٹی کس کے کہنے پر بنی کیوں کہ بہت قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز پر تنقید اور سوشل میڈیا مہم کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل بھی دی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ "خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں۔" ہم ان لوگوں کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ عدالتی فیصلوں پر تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری ہونے والے نوٹس فوری واپس لیے جائیں۔