|
نئی دہلی — دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بھارت کی نظریں بھی امریکہ کے انتخابات پر مرکوز تھیں۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے فوری بعد بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انہیں مبارک باد پیش کی اور پھر فون پر ان سے گفتگو بھی کی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے گفتگو کے دوران نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک عظیم ملک اور مودی ایک بڑے رہنما ہیں جنہیں پوری دنیا پیار کرتی ہے۔ انہوں نے مودی اور بھارت کو سچا دوست بتایا۔
مودی نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ شان دار بات چیت کی۔
انہوں نے بھی ٹرمپ کو اپنا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سمیت دیگر شعبہ جات میں بھی بھارت امریکہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں مشرقِ وسطیٰ کے تنازع اور یوکرین روس جنگ کے درمیان اپنے عوام کی بہتری اور عالمی امن و استحکام و خوش حالی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اب جب کہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں بھارتی میڈیا میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ میں بھارت امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔
مبصرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی باہمی تعلقات کے سلسلے میں مواقع اور چیلنجز دونوں لے کر آئی ہے جہاں ایک طرف ان کی قیادت میں تجارتی اور دفاعی شعبوں میں تعاون میں اضافے کے امکانات ہیں۔ وہیں نئی انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی بھارت کے لیے تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ایک طرف جہاں دونوں ملک عالمی سطح پر غیر یقینی صورتِ حال میں مستقبل میں مضبوط تعلقات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہیں دونوں رہنماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی مفادات اور مشترکہ اقدار کو ترجیح دینے کے لیے تعمیری مذاکرات میں مشغول ہوں۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ذاتی تعلقات اور دوستانہ رشتے ہیں۔ 2019 میں امریکی شہر ہیوسٹن میں ’ہاوڈی مودی‘ پروگرام اور 2020 میں احمد آباد میں نریندر مودی اسٹیڈیم میں ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام نے دونوں کے ذاتی تعلقات کو واضح کیا تھا۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اور صحافی سید رومان ہاشمی مودی اور ٹرمپ کی دوستی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب دو عالمی رہنماؤں میں دوستانہ تعلقات ہوں تو اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رومان ہاشمی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے بیانات اور تقریروں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ ان کا دوسرا دور پہلے سے کچھ مختلف ہوگا۔
وہ اس حوالے سے مشی گن ریاست کے مسلمانوں کی اکثریت کا ان کو ووٹ دینا اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے مؤقف میں قدرے نرمی کا ذکر کرتے ہیں۔
بھارت کے ایک اخبار ’فنانشل ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق تجارت کے معاملے میں ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ اور ٹیرف پالیسی بھارت کے لیے بادِ مخالف ثابت ہو سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بھارت کو بڑا ’ابیوزر‘ یعنی تجارتی بدسلوکی کرنے والا ملک قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ لوگ (بھارت) پسماندہ نہیں بلکہ بہت چالاک ہیں۔ بھارت برآمدات کے معاملے میں سرِ فہرست ہے جس کا استعمال وہ ہمارے خلاف کرتا ہے۔
رومان ہاشمی کے مطابق ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی بہت سخت ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھارت پر تنقید کی تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ مودی کی تعریف بھی کی۔ اگر انہوں نے ٹیرف کے سلسلے میں اپنے مؤقف کو سخت کیا تو اس کا اثر بھارت کی امریکہ کو برآمدات پر پڑے گا اور اس سے بھارت کے آئی ٹی، ادویات اور کپڑے کی صنعت سمیت اُن کلیدی شعبوں پر پڑ سکتا ہے جو امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے بھارت کے خود کو پیداواری مرکز ثابت کرنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔
انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ سے وابستہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مصنوعات کی درآمد پر جوابی محصولات عائد کرے گی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی شکایات پر توجہ دے گی اور بھارت کو حاصل برآمد کاروں کے لیے امریکہ کے ترجیحی تجارتی پروگرام ’جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس‘ (جی ایس پی) درجے کو واپس لے لے گی۔
انگریزی اخبار ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ کے بھاسور کمار کے مطابق بھارت کے لیے یہ اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکہ کو بھارت کی جانب سے 75 ارب ڈالر کی برآمدات پر بہت زیادہ محصولات عائد کر دے۔ اس کی زد میں امریکہ کو بھارت کی آئی ٹی خدمات، ادویات اور ہیرے اور زیورات کے شعبے آ سکتے ہیں۔
سینئر صحافی اور کالم نگار ہما صدیقی نے اخبار ’فنانشل ایکسپریس‘ میں لکھا ہے کہ امریکہ بھارت کے لیے برآمدات کا سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ محصولات سے بھارت کے تجارتی تعاون کے لیے چیلنج پیدا ہو جائے گا۔ ٹرمپ چوں کہ کھل کر مودی کی تعریف کرتے ہیں اور دونوں میں دوستی بھی ہے، اس لیے دونوں کے درمیان مذاکرات کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔
سہاسنی حیدر نے اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا کہ عالمی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو عام کر دینے کی ٹرمپ کی عادت سے بھی بھارت کو سبکی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے دور میں کئی مواقع پر مودی کا مذاق اڑایا تھا۔
ان کے مطابق ٹرمپ نے 2019 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کو بتایا تھا کہ وہ کشمیر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اور یہ کہ مودی نے ان سے ثالثی کرنے کی گزارش کی ہے۔ بھارت نے سختی سے اس کی تردید کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
رومان ہاشمی بھی ان کی اس عادت کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کب کیا کہہ دیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
ان کے بقول ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کوئی معیاری سیاست داں نہیں ہیں۔
رومان ہاشمی کے مطابق ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی بھی بہت سخت ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے دور میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد کو ان کے ملک واپس بھیجیں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی اقدامات بھی کیے تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں بڑی تعداد میں بھارتی شہری غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایچ ون بی ویزا کے بارے میں ان کی سخت پالیسی وہاں کام کر رہے بھارتی آئی ٹی ورکرز کے لیے مسئلہ کھڑا کر سکتی ہے۔ ان کے ویزے کی تجدید مشکل ہو جائے گی۔
ان کا خیال ہے کہ مودی جب بھی ٹرمپ سے گفتگو کریں گے تو اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔
خیال رہے کہ ان کے پہلے دور میں ایچ ون بی ویزا پروگرام پر پابندیوں میں اضافہ ہوا تھا جس کی وجہ سے بھارت کے اسکلڈ ورکرز پر اثر پڑا تھا۔ اگر وہ پالیسی پھر جاری رہتی ہے اور آئی ٹی سیکٹر پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی کا معاملہ بھی وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر اداروں کی جانب سے اس بارے میں تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی پر پابندی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
نئی دہلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اس میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
رومان ہاشمی کے خیال میں ٹرمپ کے دوسرے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی پر قدغن کا مسئلہ اٹھ سکتا ہے۔ لیکن ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ بعض ایسے معاملات ہیں جو دونوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لائیں گے۔ ان میں چین کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔
مبصرین کے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ میں دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون مزید گہرا ہونے کا امکان ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ مشترکہ مشقوں، اسلحے کی فروخت اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کے ذریعے ملٹری تعلقات کے استحکام کو جاری رکھے گی۔
اس کے علاوہ دونوں کی انڈو پیسفک پر مرکوز پالیسی کی وجہ سے بھی دفاعی تعاون میں اضافہ ہوگا۔
دونوں ملک خطے میں چین کی بالادستی کے خلاف ہیں اور اس کی سرگرمیوں کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔