کراچی یونیورسٹی حملہ: 'بلوچ طلبہ کو خوف ہے کہ ان پر پہلے سے زیادہ شک کیا جائے گا'

جامعہ کراچی میں منگل کو خاتون خود کش حملہ آور کے حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کی ہلاکت کے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔

حملے کے بعد ملک بھر کی یونیورسٹیز میں زیرِ تعلیم بلوچ طلبہ میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ایک بار پھر اُن کی پروفائلنگ یا نگرانی کی جائے گی۔ دوسری جانب حکومتی جماعت کے ایک رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کسی بھی خاص پس منظر کے سبب خوف کے شکار طالبعلموں کے تحفظات دور کرنے کے لیے جلد ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا اور اس ضمن میں نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کا اجلاس جلد ہونے والا ہے۔

ماضی میں بھی بلوچ طلبہ کا یہ گلہ رہا ہے کہ مختلف یونیورسٹیز میں سیکیورٹی ادارے اُن سے پوچھ گچھ کرتے ہیں جب کہ ان کے اور اُن کے اہلِ خانہ کے سیاسی رجحانات اور بلوچستان کی صورتِ حال سے متعلق اُن کی رائے کی آڑ میں اُنہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل لاہور نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک بلوچ طالبِ علم کو ویگو گاڑیوں میں آنے والے 'نامعلوم افراد' نے مبینہ طور پر 'اغوا 'کرلیا ہے ۔

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے بلوچ طالب علم کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے نے ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جو پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم نہیں تھا۔

اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بلوچ طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں ہراسانی کا مزید سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

بلوچ طالبہ سیمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت اور اداروں کو عام سیاسی سوچ اور باغیانہ سوچ رکھنے والے افراد کے درمیان فرق کرنا چاہیے۔ حالیہ دھماکے کے بعد مرد طلبہ کے علاوہ اب طالبات کے حوالے سے بھی تشویش پائی جا رہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کراچی یونیورسٹی میں دھماکہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

بلوچ طلبہ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ بیبگرامداد نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے طالبِ علم اور تربت کے رہائشی ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے سلسلہ میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اپنے کزن کے پاس رکے ہوئے تھے کہ بدھ کی صبح بغیر کسی ایف آئی آر کے اُنہیں اغوا کر لیا گیا۔

کونسل کا کہنا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش رکھنے والے طلبہ کو ڈیٹا اور ذاتی تفصیلات فراہم کرنے کے نام پر کبھی انتظامیہ اور کبھی غیرمتعلقہ افراد کی طرف سے مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح طلبہ کو اغوا کرنا بلوچ طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے اوریہ رویہ خوف وہراس کے ماحول کو جنم دے رہا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل کی طرف سے بیبگر امداد کو گاڑی میں ڈال کر لیجائے جانے کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔

کراچی یونیورسٹی کی طالبہ اور بلوچ حقوق کے لیے کام کرنے والی سیمی دین بلوچ نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی اور کہا کہ تربت سے تعلق رکھنے والے بیبگرامداد بلوچ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ چند دن قبل کراچی گیا ہوا تھا اور اس کے بعد تین چار روز قبل وہ لاہور میں اپنے کزن کے پاس پنجاب یونیورسٹی آیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی فوٹیج بھی موجود ہے جس کے مطابق اسے تشدد کرتے ہوئے گھسیٹ کر لے جایا جارہا ہے، سیمی نے کہا کہ بلوچ طلبہ کو اغوا کیے جانے کا سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔

SEE ALSO: پاکستان میں کون سے عسکریت پسند گروہ چینی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں؟

ترجمان پنجاب یونیورسٹی کے مطابق انٹیلی جنس ادارے کی درخواست پر ہاسٹل میں موجود ایک شخص کی گرفتاری یونیورسٹی سے کی گئی ہے جو پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم نہیں ہے۔

بلوچ طلبہ مزید مشکل میں؟

کراچی میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد مختلف بلوچ طلبہ کی طرف سے اس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اب انہیں مزید تنگ کیا جاسکتا ہے کیونکہ اب سیکیورٹی اداروں کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں اور ایک خاتون نے خود کش حملہ کیا ہے۔

اس بارے میں مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان میں سے بیشتر نے بات کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ ایسا کر کے اپنی مشکلات مزید نہیں بڑھانا چاہتے۔

البتہ بلوچ حقوق پر کام کرنے والی سیمی دین بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہونے والے سانحہ کے بعد بلوچ طلبہ کے لیے یونیورسٹیوں میں رہنا ، پڑھنا اور عام معمول کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

اُن کے بقول، ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ کسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث نہیں ہوتے۔ ریاست کو باغیوں اور سیاسی سرگرمیاں کرنے والوں کے درمیان فرق کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی میں تھی، اس کے بعد وہ شادی کرنے کے بعد اپنے گھر میں رہیں۔ اتنے برسوں میں ان کا تعلق کس کے ساتھ رہا اور کون کون ان کے ساتھ رابطے میں رہا ، اس پر تعلیمی ادارے کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں صرف مرد طلبہ کے حوالے سے فکر ہوتی تھی لیکن اب خواتین کے حوالے سے بھی ہم پریشان ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ کچھ عرصہ میں خواتین کے ساتھ بھی سختی ہو اور ان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہو سکتا ہے۔

سیمی دین بلوچ نے کہا کہ سیاسی سرگرمیوں اور روزانہ آنے جانے والے طلبہ کا ریاست کے باغیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہی دیکھا جائے تو وہاں پر سخت سیکیورٹی ہے۔وہاں پر وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے اندر ایسا واقعہ ہونا افسوسناک ہے جو اب دیگر طلبہ کے لیے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

خیال رہے کہ حکومتی ادارے بلاوجہ بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ٹھوس معلومات اور شواہد کی بنا پر ہی شر پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

'دیکھنا ہو گا کہ ایک خاتون دو خوبصورت بچوں کو چھوڑ کر خود کش حملہ آور کیوں بنی'

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل ایمان زینب مزاری کہتی ہیں کہ ایک خاتون دو خوبصورت بچوں کو چھوڑ کر خودکش حملہ آور بن گئی تو اس کی بنیادی وجوہات کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان زینب مزاری کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کے بعد اجتماعی سزا دینے کی بات کی جاتی ہے۔ تمام بلوچ طلبہ اور اساتذہ اسی خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں کہ اب ان پر پہلے سے زیادہ شک کیا جائے گا۔

ایمان زینب مزاری نے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین اس مہم میں شامل کیوں ہو رہی ہیں۔ ایک خاتون جو دو خوبصورت بچوں کی ماں تھی آخر ایسی کیا بات اور کیا سوچ تھی جس کے مطابق وہ مسلح جدوجہد میں شامل ہوئی اور یہ سب کچھ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تشدد اور انتہاپسندی کو اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک ان سے بات نہ کی جائے اور ان کے مطالبات کوتسلیم نہ کیا جائے۔

طالبعلموں کے خدشات پر حکومت کا ردعمل:

مسلم لیگ نواز کے رہنما محسن نواز رانجھا نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کو کراچی یونیورسٹی میں خود کش حملے کے بعد خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینےوالی ہے جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلم ہوں یا کوئی بھی پاکستانی جس کے اپنی سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں، ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے گا۔

محسن نواز رانجھا، مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر مملکت ہیں۔ وہ اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں اتحادی حکومت کے راہنما نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت، بلوچستان اور دیگر صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا از سر نو جائزہ لے گی۔ اس ضمن میں انہوں ںے بتایا کہ بہت جلد سندھ میں نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کی میٹنگ ہونے والی ہے جس میں سندھ کے وزیراعلیٰ کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے داخلہ اور وفاقی وزیرداخلہ شریک ہوں گے اور کراچی یونیورسٹی کے خود کش حملے کے بعد سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔

بقول ان کے، ’’ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا، جس میں تمام طالبعلوں، بلوچ طالبعلم ہوں یا ایسے طالبعلم جن کو اپنے کسی خاص پس منظر کی وجہ سے خطرات ہیں، یا تمام پاکستانی شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک لائحہ عمل بنایا جائے گا‘‘۔

(اس خبر کو حکومت کا موقف لینے کے بعد اپ ڈیٹ کیا گیا)